پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں جنہیں جمود کی کیفیت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اتار چڑھاو کی صورتحال کا سامنا کرتے رہے ہیں مگر جب سے جو بائیڈن نے امریکی صدارت سنبھالی ہے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں موجودہ سرد مہری کے پیچھے ایک اہم عنصر افغانستان کی صورتحال ہے خصوصی طور پر جب سے افغانستان میں طالبان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات ہمیشہ باہمی فائدے اور جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے ایک اہم عنصر کی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ امریکہ کے ساتھ ایک متوازن تعلقات کا خواہش مند رہا ہے جو تجارت ، سرمایہ کاری ، توانائی اور علاقائی رابطے پر مشتمل ہوں۔ افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیے کے لیے کوششوں کو آسان بنانے کے لیے پاکستان نے اپنے عزم کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے اور پاکستان اِس بات میں یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں صرف ایک مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت ہی اِس کے تنوع کی عکاسی کرتی ہے اور 2001 سے ملک میں حاصل شدہ فوائد کا تحفظ کر سکتی ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں دوبارہ کبھی استعمال نہ ہو۔ 7 اور 8 اکتوبر کو امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ اینڈی شرمن نے پاکستان کا دورہ کیا ہے جو کہ امریکہ کی سینٹرل اِنٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ ولیم جوزف برنس کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد بایئڈن اِنتظامیہ کے کسی اعلیٰ سفارت کا ر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ نے پاکستان آنے سے پہلے چھ اور سات اکتوبر کو انڈیا کا دورہ کیا جہاں انھوں نے ممبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انکے دورہ پاکستان میں مخصوص اِیشوز پر بات چیت ہوگی اور اپنے دورہ کے دوران پاکستان کے ساتھ کثیر الجہتی تعلقات کے قیام کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی بات چیت کے اِمکان کو مسترد کردیا۔ پاکستان میں اس بیان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اِس سے پہلے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن بھی واشنگٹن میں بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اَفغانستان کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے رویے کو مدِ نظر رکھ کر پاکستان کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو استوار کرنا چاہتی ہے اور امریکہ کی نائب وزیرِخارجہ وینڈی شرمن کا حالیہ دورہ اِسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں امریکہ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے پاکستان کا افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں کیا اِرادہ ہے اور طالبان کے حوالے سے مستقبل میں پاکستان کیا رویہ اِختیار رکھے گا۔ دوسری طرف پاکستان کو یہ شکایت ہے کہ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد اِس خطے میں ہونیوالی تبدیلیوں کے باوجود امریکی صدر نے پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان سے رابطہ نہیں کیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے آپس کے قریبی تعلقات دونوں ملکوں کے لیے مفید رہے ہیں اور یہ بھی بین الاقوامی تعلقات کی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات ہمیشہ ان کے ذاتی مفادات اور منفعت کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں اگر ایک ملک کو باہمی تعلقات سے فائدہ حاصل نہیں ہورہا تو وہ تعلقات کیونکر قائم اور برقرار رکھے گا۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ہمیشہ سے مفادات کی بنیاد پر استوار کیے گئے اور ملکی مفادات کے گِرد گھومتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دونوں ملک اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر آگے بڑھیں گے۔ موجودہ حالات میں امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان میں القائدہ اور داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان امریکہ کو اپنی فضائی حدود میں رسائی فراہم کرے کیونکہ امریکہ کو اِن گروہوں کے خلاف فضائی کاروائی کرنے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی ضرورت ہے مگر پاکستان کے لیے امریکہ کو یہ سہولت فراہم کرنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان کے اِس عمل سے طالبان ناراض ہوسکتے ہیں جبکہ داخلی سطح پر بھی حکومتِ پاکستان کو عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ کسی بھی حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اِسی طرح پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ کم از کم افغانستان کے منجمد اثاثے اور ماضی میں افغانستان کو فراہم کی جانیوالی امداد بحال کر دے تا کہ افغان عوام کو درپیش معاشی مشکلات میں کمی آسکے۔ پاکستان اور امریکہ کے قریبی باہمی تعلقات کو بھارت کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا اور موجودہ صورتحال میں، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قیام کے نتیجے میں اِنڈیا کے مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے، بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں گرم جوشی آئے۔ دوسری طرف سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی اب یہ کوشش ہے کہ وہ خطے کے ممالک کے ساتھ چلے خصوصی طور پر افغانستان کے معاملے میں۔ اِس لیے پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کررہا بلکہ ریجنل اَپروچ کو اِختیار کرتے ہوئے چین، روس، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ پالیسی اپنانے کی طرف جھکاو رکھتا ہے تاکہ خطے میں اِستحکام حاصل ہو سکے جبکہ امریکہ کے ساتھ بھی متوازن باہمی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ جیسے مضبوط معاشی، سیاسی اور فوجی طاقت سے نا ہموار تعلقات بھی اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ البتہ خطے کی موجودہ صورتحال اور عالمی سیاست کے ٹرینڈز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات “ٹرانزیکشنل ریلشن شپ” کے طور پر ہی قائم رہیں گے۔