مریم نواز وقت کی آواز!!!

0
175
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ پاکستان کی مختصر تاریخ میں پاکستانی خواتین نے اپنے سیاسی کردار میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔جو ناقابل فراموش ہے جس میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے ملک کے اپوزیشن لیڈروں شیخ مجیب، ولی خاں، نوابزادہ نصر اللہ خاں اور دوسری قیادت کے ساتھ مل کر ملک کے پہلے جابر، ظالم اور قابض حکمران جنرل ایوب خان کو للکارہ تھا جس پر انہیں پاکستان کا غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔بیگم نسیم ولی خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور قیادت کی جیل میں بندشوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی تھی۔بیگم نصرت بھٹو نے زیڈ اے بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کو چین سے نہ بیٹھنے دیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف پورے گیارہ سال تک مخالفت کرتے ہوئے جلاوطنی اختیار کی ،بیگم کلثوم نواز نے جنرل مشرف کے تختہ ا لٹنے کے خلاف جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تھا مگر آج کے دور آمریت بربریت اور فسطائیت میں محترمہ مریم نواز پیش پیش تھیں جنہوں نے وقت کے ملٹری اور عمرانی گٹھ جوڑ کے خلاف پرچم بلند کر رکھا ہے جس سے آج کے جابروں کے ایوانوں، دربانوں اور پلوانوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔کل جب مریم نواز جن کو جیل میں باپ کے سامنے ہنگڑیوں کے ساتھ ملایا گیا۔جیل میں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔باتھ روم میں نہانے دھونے پر ننگی تصویریں بنائی گئیں۔قید تنہائی میںعقوبت خانے میں بند رکھا گیا جن پر آج بھی قیدوبند کی تلوار لٹکتی ہوئی نظر آتی ہے۔انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی دائر درخواست پر بیان دیتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا کہ مجھے اور میرے والد محترم سابقہ وزیراعظم نوازشریف کو من گھڑت اور مفروضوں کی بنا پر مقدمات میں سزائیں دی گئیں جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض احمد پیش پیش تھے جنہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت صدیقی کو گھر جاکر وارننگ دی کہ نوازشریف اور مریم نواز کو مسلم لوگ ماتحت پیشی عدالت سے سزائیں دلوا رہے ہیں۔جو آپ کے پاس ہائیکورٹ میں اپیل کے لیے آئے گا۔تو آپ نے ان کی اپیل کو رد کرنا ہوگا تاکہ ہماری دو سالہ محنت نہ ضائع ہوجائے جس کے لیے مسلم نے نوازشریف کو اقتدار سے مٹایا اور سزا دلوا رہے ہیں۔جس کے جواب میں جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ کو کیسے علم ہے کہ انہیں عدالت سے سزا ہو رہی ہے۔یا پھر ہم ان کی اپیل پر ان کی سزا کو کالعدم قرار دیں گے جب ہمارے پاس فیصلے کی اپیل آئے گی۔تو ہم میرٹ پر فیصلہ کریں گے جس کے بعد جسٹس شوکت صدیقی نے اپنا دھمکیوں اور دبائو کا مقدمہ وکلاء برداری کے سامنے پیش کیا تو ان کے جج حضرات پر مبنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اس نوکری سے برطرف کردیا جس نے اس عدالت میں مداخلت پر کوئی تحقیقات نہیں کرائی ہے تاہم جنرل فیض حمید کو پوچھا گیا کہ انہوں نے ایک عدالتی جج کو کیوں دھمکیاں دی ہیں۔
مزیدبرآں نیب عدالت کے جج ارشد ملک کو ان کی کوئی نازیبا ویڈیو دیکھا کر نوازشریف کو ایوان فیلڈ اپارٹمنٹوں کیس میں سزا دی جس کے بعد میں انہوں نے اقرار جرم کیا کہ میں نے نوازشریف کو غلط سزا دی ہے۔مجھ پر بلیک میل کرنے اور خفیہ ادارے کا دبائو تھا جس میں ایک کرنل نے بیٹھ کر جج ارشد ملک سے فیصلہ لکھوایا تھا۔جس کا نوازشریف حقدار نہ تھا۔لہذا درخواست کے مطابق عدلیہ کو جنرل فیض حمید اور جسٹس شوکت صدیقی کو عدالت میں طلب کیا جائے۔جو اپنی اپنی صفائی پیش کریں علاوہ ازیں جج ارشد ملک کے ویڈیو پر فیصلہ کیا جائے کہ ان کو بلیک میل کرکے کیوں عدالتی فیصلہ لیا گیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز آج وقت کی آواز بن چکی ہیںجنہوں نے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالا ہے جو صرف اور صرف کوئی بہادر اور دلیر شخص کر سکتا ہے چونکہ ریاست کے اوپر ریاست کا وجود قائم ہے جو عوامی ریاست سے زیادہ طاقتور ہے جس نے پورے پاکستان کو اپنی نوآبادیات میں شامل کیا ہوا ہے۔اس لیے جنرلوں کے سامنے عدلیہ نامی کوئی شہ نہیں ہے جو کسی جنرل کو عدالت میں طلب کر پائے اگر ایسا ہوا تو عدلیہ آزاد اور خودمختار ہو جائے گی۔یا پھر ججوں کا حال سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری جیسا ہوگا۔جنہوں نے جنرلوں، کرنلوں، پولیس آئی جیوں کمشنروں اور بڑے بڑے خانوں کو عدالت میں طلب کیا تھا تو ان کیا حشر ہوا کہ جن کے خلاف فوجی جنتا نوکر شامل اور سیاسی پنڈت جمع ہوگئے۔جنہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔تاہم مریم نواز کی درخواست کے مطابق جنرل فیض حمید توہین عدالت اور مجرمانہ فعل کے مرتکب ہوچکے ہیں۔جن کو عدالت کو لازم طلب کرنا چاہئے جن سے پوچھ گچھ کی جائے۔کہ انہوں نے عدالتی کارروائی میں مداخلت کیوں کی ہے جسٹس شوکت صدیقی کے بطوروہ پوچھنا بھی ضروری ہوچکا ہے کہ ان پر کیوں اور کس لیے دبائو ڈالا گیا تھا۔اگر یہ سب سچ نکلے تو جنرل فیض حمید کو سزا دینا ہوگی چاہے اس قانون کے شکنی کے مطابق یا فوجی قانون کے مطابق کورٹ مارشل ہوتا کہ آئندہ کوئی بھی طاقت ور اہلکار اور عہدیدار عدالتی کارروائی میں مداخلت نہ کرے جن کی وجہ سے پاکستان کی عدلیہ یرغمال بن چکی ہے۔بحرحال مریم نواز کی جنرل فیض حمید کے خلاف چارشیٹ یا ایف آئی آر درج ہوچکی ہے جس پر اب عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔جو سب ججوں کے ضمیر پر انحصار کرتا ہے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یا پھردبائو میں لہٰذا آج پاکستان میں قانون کی بالاتروں کا سوال درپیش ہے۔ایک طرف قانون دوسری طرف بے قابو جنرلوں کی بغاوت ہے اگر عدلیہ قانون کے مطابق فیصلہ کریگی تو پاکستان کی ایک نئی تاریخ مرتب ہوگی جو نسلوں تک جانی پہنچانی جائے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here