بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں!!!

0
65

میری پینسٹھ سالہ زندگی کے پہلے پچیس سال پاکستان میں اور آخری پینتیس سال امریکہ میں گزرے ہیں۔ ان دو ادوار میں کچھ تغیرات ایسے واقع ہوئے ہیں کہ جن کا ذکر نہ چاہتے ہوئے بھی ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے تو یہ طے تھا کہ اول تو کسی نامحرم خاتون سے بات ہی نہیں کرنی اور مجبورا ًکرنی بھی پڑجائے تو کبھی آنکھیں نہیں ملانی ہیں یہاں امریکہ میں نظروں سے نظریں ملا کر بات نہ کریں تو آپکو کوئی اچھا فرد نہیں سمجھا جاتا۔اس لئے کچھ عرصے بعد ہمیں بھی نارمل ہونا پڑا۔ پاکستان میں تو تصویر بنانا یا بنوانا، گناہِ کبیرہ شمار ہوتا تھا یہاں آج مسجد کے ممبر پر بھی مولانا حضرات سیلفی لے کر نماز پڑھاتے ہیں۔ ہمارے جیسے گنہگار تو ان سے بھی کئی درجے آگے ہیں۔تیسرا بڑا تغیر موسیقی سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارا ریڈیو، ٹیلیوژن، فلم اور ڈرامے کی دنیا سے دور رہنے کی سب سے بڑی وجہ موسیقی کا حرام ہونا تھا لیکن جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کے مصداق، رفتہ رفتہ اسلامی اجتماعات میں بھی کلچرل اور انٹرٹینمنٹ سیشنز کی ترویج ہوتی چلی گئی۔ پچھلے تین ہفتوں میں زکواة فائونڈیشن آف امریکہ کی جانب سے ہمیں اندلس سے آئے ہوئے نشید آرٹسٹوں کے ایک ایسے گروپ کی میزبانی کا شرف حاصل رہا جو صوفی میوزک کمپوزیشن پیش کرنے میں خاصے مشہور ہیں۔ الفردوس نام کا یہ گروپ، تقریبا ہر سال ہی امریکہ کا دورہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ ان کے پروگرام البنی Albany NY، بوسٹن، لانگ آئی لینڈ نیو یارک، نیو جرسی، فلاڈیلفیا، بالٹی مور، نارتھ کیرولائنا اور اٹلانٹا میں منعقد کئے گئے اور بہت کامیاب رہے۔ ہر پروگرام میں غزہ کے لئے فنڈز جمع کرنے کی اپیل کی گئی۔ شرکا نے خوب مدد کی۔ البنی، نیو یارک میں، وہاں کی ایک بڑی مسجد کے امام، شیخ جعفر نے پروگرام میں شرکت کے بعد کہا کہ انہیں، ان نشیدوں میں اندلس کے مظلوموں کا وہ درد نظر آتا ہے جس سے آج دنیا میں ہر جگہ کے مسلمان گزر رہے ہیں۔ الفردوس گروپ میں شامل مراکش، اسپین، یورپ اور وینزویلا کے فنکار، واقعی اپنے فن میں ماہر ہیں۔ میں نے بھی شمالی نیو جرسی میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کی۔ وہاں بہت سے پرانے دوستوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ الحمدللہ۔مسلمانوں نے ہسپانیہ پر تقریبا آٹھ سو سال تک حکمرانی کی۔ اس طویل عرصے میں، شمالی یورپ تو ہر طرح کی تاریکیوں میں ڈوبا رہا لیکن اندلس کی سرزمین نے اس اسلامی دور میں خوب ترقی کی۔ خاص طور پر طب، فلکیات، ریاضی اور زراعت کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور منطق کے میدانوں میں ان کی مہارت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہسپانیہ کے مسلمانوں پر جب زوال آیا تو صرف دکھ بھری موسیقی اور چند تاریخی عمارتیں ہی باقی رہ گئیں۔ اقبال نے مسلمانوں کی تعمیر کی ہوئی مسجدِ قرطبہ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے۔
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرے در و بام پر وادء ایمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل
الفردوس گروپ کے تقریبا سارے نشید عربی زبان میں ہونے کے باوجود، ترکی اور اردو جاننے والے بھی ان میں، کافی دلچسپی لیتے ہوئے پائے گئے۔ صوفی موسیقی شاید بذاتِ خود ایک ایسی زبان ہے جسے سمجھنے سمجھانے کیلئے کسی اور زبان کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ شرکا پروگرام نے اس خوبصورت مدھ بھری شام کا خوب لطف اٹھایا۔اس خوبصورت پروگرام کے دوران مجھے البتہ دنیا بھر کے زیادہ تر مسلمانوں کی حالتِ زار پر کافی افسوس محسوس ہوتا رہا۔ ہم ہیں کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرتے نہیں تھکتے۔ ان ہی مایوسیوں کے درمیان اقبال نے ایک مرتبہ پھر سرگوشی کرکے دلاسہ دیا کہ
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل للہ کے دریا میں ہوں گے پھر گوہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here