مغربی دنیا کے نئے مردِ بیمار سے ہمارا تعارف تو خاصا پرانا ہے لیکن جیسے جیسے اس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ہماری پریشانی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اسی کی دہائی میں جب میں نے امریکہ کی امیگریشن حاصل کی تو دیوارِ برلن گرنے والی تھی اور میرا نیا ملک دنیا کی سنگل سپر پاور بننے والا تھا۔ آج دکھ ہورہا ہے کہ میری آئندہ نسل جس ملکِ امریکہ کی شہری بن چکی ہے وہ اب اخلاقی تنزلی کی آخری حدود چھو رہا ہے۔ ایران اور عراق جیسے پڑوسی ممالک کو اسلحے کی بیک وقت سپلائی، عراق کے جھوٹے WMD، شام اور لیبیا کی خانہ جنگیاں، یمن کی تباہی، افغانستان پر لشکر کشی، مصر اور پاکستان کے رجیم چینج آپریشنز اور یوکرین کی جنگ جیسے جرائم تو اِس مردِ بیمار کے کھاتے میں آہی چکے ہیں لیکن فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ اور مسلم نسل کشی کی کوشش، اب اس کا آخری جرم ثابت ہونے والا ہے۔مشرقِ وسطی کے قدرتی وسائل پر کنٹرول کیلئے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کو اب پچھتر سال ہوچکے ہیں لیکن ساری طاقت اور ٹیکنالوجی کے باوجود فلسطین کے غیرت مند غریب اور مسکین عوام کو مسخر نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ چالیس سالوں میں، مجھے امریکہ میں رہنے والے فلسطینیوں سے بھی ملنے کے مواقع حاصل رہے، اردن اور لبنان کے کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ویسٹ بنک اور غزہ کے لوگوں سے بھی تعارف رہا۔ ان سب میں امیر و غریب بھی تھے، مذہبی و سیکولر بھی شامل تھے اور بڑے بوڑھے اور بچے بھی تھے لیکن فلسطین کی سرزمین کے ساتھ ان کی محبت، عشق کی حدود سے بھی کہیں آگے نظر آئی۔ قبلہ اول کی حفاظت انکی اولین ترجیح رہی۔ تقریبا ہر گھرانے نے اپنے فلسطینی گھر کی چابیاں حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔ کیا کمال کی قوم ہے؟ خواتین ، مرد اور بچے، آبائی وطن کی محبت میں یکساں سر شار نظر آئے۔سات اکتوبر کے بعد کا فلسطین تو دنیا کی تمام قوموں کا امام بن چکا ہے۔ بلکہ سپر پاور کو گھٹنوں پر لے آیا ہے۔ کئی ارب ڈالر خرچ کرکے، جدید ترین ہتھیاروں سے لیس صیہونیوں فوج، عام عوام کے سامنے بالکل بیبس نظر آتی ہے۔ نہتی خواتین اور بچیوں پر بمباری کرنے والے سورما، پوری دنیا میں ایسے رسوا ہوچکے ہیں کہ ہر خاص و عام سپر پاور پر تھو تھو کر رہا ہے۔ صیہونی ظالموں کی سیاست، معیشت، معاشرت، عزت اور حاکمیت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ سپر پاور امریکہ پچھتر سال کی کوشش و کاوش کے باوجود ناجائز صیہونی ریاست کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرسکا۔ آج بھی اس کے دفاع کیلئے پتہ نہیں کتنے پاپڑ بیلے پڑ رہے ہیں۔ زندہ باد فلسطین، آج تم نے دنیا کا ضمیر زندہ کردیا ہے۔ظالم صیہونیوں نے فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھایا وہ تو اپنی جگہ لیکن جو زیادتی انہوں نے قومِ یہود کے ساتھ کی ہے وہ بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ یورپ کے نازیوں کے ظلم سہنے کے بعد، قومِ یہود کے نام پر قائم کی جانے والی ناجائز ریاست میں کوئی شریف اور امن پسند یہودی خاندان، آج تک چین سے نہیں رہ سکا۔ صیہونی قوتوں کے مفادات کیلئے یہودیوں کی بھی کئی نسلیں تباہی اور بربادی دیکھ چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کیلئے کئے جانے والے ہر مظاہرے میں، یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ بلکہ چند انتہائی مثر احتجاجی مظاہروں کی قیادت بھی یہودی تنظیموں نے کی ہے اور مسلسل کر بھی رہے ہیں۔غزہ کا محاصرہ تو سے جاری ہے لیکن سات اکتوبر کے بعد سے حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس سے تو سپر پاور کا ورلڈ آرڈر ہی سخت خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ پوری دنیا کی رائے عامہ اس وقت امریکہ اور یورپ کی ظالم حکومتوں کے خلاف زبرست احتجاج کر رہی ہے۔ خود امریکہ کے اندر، حکومت پر زبردست دبا ہے۔ صیہونیوں کی دولت پر پلنے والے منتخب امریکی نمائندے بڑی مشکل میں ہیں۔ غزہ کے مظلوموں نے دنیا کے ہر مظلوم کو ایک توانا آواز فراہم کر دی ہے۔ طاقت کے ایوان لرز رہے ہیں۔ بس ان گرتی ہوئی دیواروں کو صرف ایک آخری دھکے کی ضرورت ہے۔
علامہ اقبال نے، اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے، فلسطینی عرب سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
علامہ کا یہ فرمان آج بھی نوجوانوں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں تیس ہزار سے بھی زائد فلسطینیوں نے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ ان میں تیرہ ہزار سے زائد بچے ہیں۔ اس مظلومیت اور مجبوری کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن یہ شہید تو ظالموں کو شکست دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہو گئے ہیں۔ وہ تو اب آزاد ہیں۔ ہم جیسے لوگ ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم سے حق کی گواہی بھی نہیں دی جا پا رہی۔آخر میں فیض احمد فیض کا یہ ترانہ حاضر ہے جو اہلِ فلسطین کی ہمتیں بڑھانے کیلئے ایک زبردست پیغام ہے:
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغار اعدا
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
قد جا الحق و زھق الباطل
فرمودہ رب اکبر
ہے جنت اپنے پاں تلے
اور سایہ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
٭٭٭