سابق پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو صاحب جب پہلی دفعہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہینری کسنجر کو چائنیز وزیراعظم چو این لائی سے ملوا رہے تھے تو کسینجر نے چائنیز پریمیئر سے پوچھا ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں ،چواین لائی نے آئی ایم ایف سے بلینزڈالرز کے پیکج کی سفارش کروانے کی بجائے کہا کہ جناب آپ ہمارے بچوں کو امریکن یونیورسٹیز میں پڑھنے کی اجازت اور موقع دے دیں ، اس وقت چین کا کوئی طالب علم امریکہ کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کر رہا تھا لیکن ایران کے پچاس ہزارسٹوڈنٹس امریکن یونیورسٹیز کے طالب علم تھے۔ نتیجہ امسال ساڑھے تین لاکھ چائنیز امریکی تعلیمی اداروں میں داخل ہیں اورتو اورایک لاکھ چھیاسی ہزار انڈین ہر سال امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طالب علم بنتے ہیں اورگزرتے سالوں میں یہ تعداد بڑھتے ہی جا رہی ہے ،تعلیم سے فراغت پر پچانوے فیصد واپس جا کر اپنے ملکوں میں خدمات انجام دیتے ہیں اور ملکی ترقی کا باعث بنتے ہیں، آپ کو سن کر شاید حیرت ہو گی کہ ہم کو یلا یا رفیق کہنے والے سعودی ہر سال اپنے تریپن ہزار طالب علم امریکہ کے تعلیمی اداروں میں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے بمعہ فیملی بھیجتے ہیں، اب اپنی حالت دیکھ لیں۔ تین سے پانچ ہزار پاکستانی طالب علم ہر سال امریکہ میں تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں اور اکثریت کی کوشش یہیں سلپ ہو جانے کی ہوتی ہے یہ لوگ واپس جا کر اپنے ملک کوکیا فائدہ پہنچائیں گے بلکہ اکثر پاکستانی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ باہر کے ملکوں میں ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ، اس وقت اٹھارہ ہزار پاکستانی ڈاکٹرز امریکہ میں پریکٹس کر رہے ہیں اور پنجاب میں پانچ لاکھ عطائی ڈاکٹرز ہپاٹایٹس اور ایڈز پھیلانے میں مصروف ہیں اگر یہ کہا جائے کہ چائنہ اور انڈیا کی آبادی پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے تو یہ بھی دیکھیں کہ سعودیہ تو پاکستان کی آبادی سے بہت کم آبادی والا ملک ہے جہاں تعلیم کا بہت برُا حال تھا ،شاہ عبدللہ کے دور سے ان میں تعلیم کی اہمیت کا شعور پیدا ہوا، اب ہر بچہ تعلیم حاصل کرتا ہے بطور خاص ہرلڑکی کو سرکاری سکول بس گھر سے اٹھا کر سکول لیجاتی ہے اور وہی سکول جودن میں بچوں کی درسگاہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں شام کو عصر سے لے کرعشا تک تعلیم بالغاں کے مراکز ہیں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تعلیم کیساتھ ساتھ صنعتی و ثقافتی ترقی پر بھی زور دے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے طالب علموں کے بسوں کے کرایہ پر رعایت دی تھی تاکہ طالب علم سکولوں کالجوں میں تعلیم کی غرض سے دوردراز تک جا سکیں جناب محمد خان جونیجوصاحب نے اس مسئلہ پر توجہ کی تھی تعلیم بالغاں تک کو ایڈریس کیا تھا لیکن پھر ان کے ریڈ کارپٹ پروٹوکول کو ایک طیارے کے انجن کی ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ اس وقت پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہے تعلیم پر سب سے کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے ،غربت کی وجہ سے بچے مدرسوں میں خیرات کے ٹکڑوں پر پل کر مولویوں کی جنسی تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں ،ان میں سے اکثر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں جو بعد میں اپنی فرسٹریشن معاشرے سے بدلہ لیکر نکالتے ہیں، ان پڑھ معصوم نوجوان تخریب کاری کا ایندھن بن جاتے ہیں خود کش جیکٹس تک پہن لیتے ہیں اور ان دیکھی حوروں کو گلے لگا کر ابدی نیند سو جاتے ہیں ۔یہ سب کیا ہو رہا ہے اور یہ کب تک ہوتا رہے گا کیا عمران خان کی حکومت نے کسی حد تک کوشش کی تھی انہوں نے ایک طرح کی تعلیمی ایمر جنسی لگائی یکساں تعلیمی نصاب کو لاگو کیا پی ٹی آئی کے منشور میں تعلیم پہلی ترجیح ہے پنجاب کے ضمنی بجٹ میں تعلیم کی مد میں تین گنا اضافہ کیا گیا تمام بچوں اور انکے والدین کو سکول میں داخلے کی ترغیب دی گئی اور سکولوں کو بہتر سہولیات مہیا کی گئیں ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف خاص توجہ مبذول کی گئی جس کی بدولت ہنر مند لیبر کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک نوکری حاصل کرکے زر مبادلہ میں اضافہ کا زریعہ بن سکی اعلی تعلیمی اداروں میں ریسرچ کلچرمتعارف کرایا گیا اب جبکہ عمران خان قید میں ہے عمران نے قوم کوتعلیم دی شعور دیا ہے ہمیں اسی کے دئیے ہوئے شعور کو استعمال میں لا کر اجتماعی طور پر کوئی ایسی سٹریٹجی بنا ہو گی کہ اسے قید و بند کی صعوبتوں سے نجات ملے اور وہ ایک دفعہ پر سے حکومت میں آئے تاکہ دشمن کی بجائے پاکستانی قوم کے بچوں کو پڑھایا جاسکے
اقراباسم ربک الذی خلق۔۔۔
٭٭٭