فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!
محترم قارئین! حضرت ابوامامہ بایلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ثعلبہ بن حاطب نے رسول اللہۖ کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال دے۔ آپ نے فرمایا: اے ثعلبہ! تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرتا ہے اس مال کثیر سے بہتر ہے جس کا تو شکر ادا نہیں کرسکتا۔ ثعلبہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مال کی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: اے ثعلبہ! کیا تیرے پیش نظر میری زندگی نہیں ہے؟ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیری زندگی نبی کی زندگی جیسی ہو؟ بخدا! اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلیں تو یقیناً چلیں گے۔ ثعلبہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا۔ اگر آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مال کی دعا کریں تو میں اس مال سے ہر حقدار کا حق پورا کروں گا اور میں ضرور کروں گا۔ میں ضرور حقوق ادا کروں گا۔ حضورۖ نے دعا کی: اے اللہ: ثعلبہ کو مال عطا کر! چنانچہ اس نے بکریاں لیں اور وہ ایسے بڑھیں جیسے حشرات الارض بڑھتے ہیں اور ان کے لئے مدینہ شریف میں رہنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ ثعلبہ مدینہ سے نکل کر قریب ہی ایک وادی میں آگیا اور تین نمازیں چھوڑ کر صرف دو نمازیں ظہر اور عصر جماعت کے ساتھ پڑھنے لگا بکریاں اور بڑھیں وہ کچھ اور دور ہوگیا۔ یہاں تک کہ وہ صرف نماز جمعہ میں شریک ہوتا اور بکریاں برابر بڑھتی رہیں تاآنکہ اس سلسلہ میں مصروفیت کی وجہ سے اس کی جمعہ کی جماعت بھی چھوٹ گئی۔ اور جمعہ کے دن مدینہ سے آنے والے سواروں سے مدینہ کے حالات پوچھ لیتا۔ حضورۖ نے اس کے متعلق پوچھا کہ ثعلبہ بن حاطب کو کیا بنا؟ عرض کی گئی یارسول اللہ! اس نے بکریاں لیں اور وہ اتنی بڑھیں کہ ان کا مدینہ میں رہنا دشوار ہوگیا اور اس کے تمام حالات بتلائے گئے۔ آپ نے سن کر فرمایا: اے ثعلبہ! افسوس! اسے ثعلبہ! افسوس: افسوس! اے ثعلبہ: راوی کہتے ہیں کہ تب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ترجعہ:”ان کے مال سے صدقہ لیجئے۔ ان کے ظاہر اور باطن کو پاک کیجیئے ان کے صدقات اور ان کے لئے دعا کیجئے۔ بے شک آپ کی دعا ان کے لئے تسکین ہے۔ ” حضورۖ نے جہینہ اور بنوسلیم کے دو آدمیوں کو صدقات کی وصولی پر مقرر فرمایا اور انہیں صدقات کے احکام اور صدقات وصول کرنے کی اجازت لکھ کر روزانہ فرمایا: کہ جائو اور مسلمانوں سے صدقات وصول کرکے لائو اور فرمایا کہ ثعلبہ بن حاطب اور فلاں آدمی کے پاس جانا جو بنی سلیم سے تعلق رکھتا ہے اور ان سے بھی صدقات وصول کرنا چنانچہ یہ دونوں حضرات ثعلبہ کے پاس آئے اور اسے حضورۖ کا فرماں پڑھو! کر صدقات(بکریوں کی زکواة) کا سوال کیا۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو ٹیکس ہے، یہ تو ٹیکس ہے، یہ تو ٹیکس ہے، تم جائو، جب تم فارغ ہو چکو تو میرے پاس پھر آنا۔ پھر یہ حضرات بنو سلیم کے اس آدمی کے پاس آئے جس کے متعلق حضورۖ نے فرمایا تھا جب اس نے سنا تو اس نے اپنے اعلیٰ مرتبہ اونٹوں کے پاس جا کر ان میں سے صدقہ کے لئے علیحدہ کردیئے اور انہیں لے کر ان حضرت کی خدمت میں آیا۔ ان حضرت نے جب وہ اونٹ دیکھے تو بولے! تمہارے لئے یہ اونٹ دینا ضروری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم تم سے عمدہ اور اعلیٰ اونٹ لینے آئے ہیں اس شخص نے کہا: انہیں لے لیجئے۔ میرا دل انہیں سے خوش ہوتا ہے اور میں یہ آپ ہی کو دینے کے لئے لایا ہوں۔ جب یہ حضرات صدقات کی وصولی سے فارغ ہوچکے تو ثعلبہ کے پاس آئے اور اس سے پھر صدقات کا سوال کیا، ثعلبہ نے کہا، مجھے خط دکھائو اور اس نے خط دیکھ کر کہا: یہ ٹیکس ہی کی ایک شکل ہے تم جائو تاکہ میں اس بارے میں کچھ غور کرسکوں۔ لہذا یہ حضرات واپس روانہ ہوگئے اور حضورۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضورۖ نے ان سے بات چیت کرنے سے پہلے محض انہیں دیکھتے ہی فرمایا: ! افسوس! اور بنو سلیم کے اس شخص کے لئے دعا فرمائی پھر ان حضرات نے آپ کو ثعلبہ اور سلیمی کے مکمل حالات سنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ثعلبہ کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ ترجعہ:”اور ان میں کوئی وہ وہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے۔ تو جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے تو اس کے پیچھے اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں سے اللہ سے وعدہ جھوٹا کیا۔اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے ہیں۔” حضورۖ کی خدمت میں اس وقت ثعلبہ کا ایک رشتہ دار بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ثعلبہ کے متعلق نازل ہونے والی آیات کو سنا تو آٹھ کر ثعلبہ کے پاس گیا اور اسے کہا! تیری والدہ ماری جائے! اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں فلاں فلاں آیات طیبات نازل کی ہیں۔ ثعلبہ نے یہ سنا تو وہ حضورۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور صدقہ قبول کرنے کی درخواست کی۔ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرا صدقہ لینے سے منع فرمایا ہے۔ ثعلبہ یہ سنتے ہی اپنے سر میں خاک ڈالنے لگا۔ حضور علیہ الصّلٰوة والسّلام نے فرمایا: تیرے یہ کرتوب! میں نے تجھ سے پہلے کہہ دیا تھا مگر تو نے میری بات مانی تھی۔ جب آپ علیہ الصّلواة وسلّم نے صدقہ لینے سے بالکل انکار فرما دیا تو وہ اپنے ٹھکانے پر لوٹ آیا۔ جب حضورۖ کا وصال باکمال ہوا تو وہ اپنے صدقات لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر انہوں نے بھی لینے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آیا تو آپ نے بھی انکار کردیا یہاں تکہ کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے شروع میں ہی ثعلبہ فوت ہوگیا۔ توبہ! کس قدر عبرتناک ہے یہ معاملہ؟ اللہ پاک حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭