پاکستان کے نظام انصاف کو اب ایک اور سنگین صورتحال کا سامنا ہے، پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے، مگر حقیقت میں کوئی بھی اس بات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں دلچسپی نہیں لے رہا، حکومت اپنی چالیں چل رہی ہے تو اپوزیشن والے اپنی گیم چلا رہے ہیں۔ مگر اس ساری صورتحال میں عوام ایک بار پھر مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے لیے تیار ہوجائے، سبھی جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد اب حکومت کی جیب میں پیسہ جائے گا مگر عوام کی جیب سے پیسے نکال کر ان کو مزید مفلسی میں دھکیل دیا جائے گا۔ اس ساری صورتحال پر پردہ ڈالنے کے لئے یا مٹی ڈالنے کے لیے یہ ایک سکینڈل سامنے آنا آئی ایم ایف کے تمام صورتحال کو پس پردہ ڈال دیتی ہے۔ چلیں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد عوام کا جو حال ہوگا سو ہوگا، مگر کم از کم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر سچ اور جھوٹ کو واضح کیا جانا چاہئے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستانی سیاست میں عدلیہ کے کردار کو ثابت کرنے کے لئے اس آڈیو کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ثاقب نثار اپنے دور میں انتہائی متنازعہ چیف جسٹس رہے۔
پانامہ کیس کا حوالہ موجود ہے، جس میں چار سو سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج ہونے تھے مگر سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کارروائیوں کے بعد یہ تمام معاملہ دبا دیا گیا۔ اس کیس کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر خصوصی نگران جج کا تقرر بھی کیا گیا۔ اسلام آباد، لاہور اور ملتان میٹرو پر تو تفتیشی ادارے کام کرتے رہے مگر پشاور میٹرو پر ایف آئی اے کی جانب سے واضح رپورٹ سامنے آنے کے بعد کارروائی روکنے کا حکم دے دیا گیا۔1985 میں نواز شریف کی جانب سے دیئے گئے پلاٹ پر تو کاروائی کا آغاز ہوا مگر مالم جبہ میں پہاڑیاں کیسے فروخت ہوئی اور کتنی کرپشن ہوئی یہ معاملہ بغیر کارروائی کے آج تک ویسے ہی پڑا ہوا ہے۔ مسلم لیگ نون کی سینیٹر سعدیہ عباسی کی دوہری شہریت تو پل بھر میں ثابت کر دی گئی اور ان کو نااہل قرار دے دیا گیا مگر فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود آج تک عدالت یہ پوچھنے کی جرت نہیں کر سکی کہ آپ کے پاس دوہری شہریت کب تک تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی قسم اور قرآن پر حلف لینے کے باوجود کہی گئی بات پر انہیں گھر بھجوا دیا گیا مگر اس آڈیو کو عدلیہ پر حملہ کر دے اگر یہ خود بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ ایک تفریق موجود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب اس آڈیو کی ناصرف فرانزک رپورٹ کروائیں بلکہ اس کا رزلٹ بھی لوگوں کے سامنے رکھے۔ ورنہ عدلیہ کام ابھی چیخ چیخ کر کہتا رہے گا کہ پاکستان میں ججز نے انصاف کو فروخت کیا۔
٭٭٭