غزہ کے مظلوم و معصوم بچوں کی چیخوں اور انکے والدین کی آہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایرانیوں پر جنگ تو مسلط کردی گئی لیکن شومئی قسمت کہ صیہونی قیادت کو مقبولیت پھر بھی نہ مل سکی۔ تاریخ اور جغرافیہ کے نام نہاد مغربی ماہرین نے دنیا کی ایک ہزاروں سالہ پرانی تہذیب کے گہوارے پر بالکل ایسا بیہودہ حملہ کیا کہ وہ مجھے ترقی پذیر ممالک کے کئی ڈکٹیٹروں سے بھی زیادہ جاہل اور گنوار نظر آئے۔ اپنی جارحیت کے پہلے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایرانی قیادت کو مکمل ختم کرکے رجیم چینج کر نے والوں کو ایرانی قوم کی چند اہم خصوصیات کا کچھ علم ہی نہیں تھا۔ پرامن مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی یورینیم پر ہونے والے کام کی تو انہیں بڑی فکر تھی اور ہر جگہ اسی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا لیکن انتہائی مہلک میزائل پروگرام کے بارے میں انکی معلومات بالکل ناکافی نظر آئیں۔ ایرانی قوم کی بڑی اکثریت اپنے مذہبی پیشواں کے ہر فتوے پر خوب دل و جان سے عمل کرتی ہے بلکہ اسے اپنے ایمان کا ایک حصہ سمجھتی ہے۔ امام خمینی ہوں یا امام خامنہ ای، دونوں نے جوہری ہتھیاروں کے خلاف ایسا فتوی دیا ہوا ہے کہ جس کی بنیاد پر امریکہ و اسرائیل سمیت پوری دنیا کو کسی فکر کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ اس پسِ منظر میں، ایران پر چڑھائی کرنا بالکل بے سود ٹھہرنا تھا اور وہی ہوا بھی۔ مجرمانہ جارحیت کے جواب میں، جنگی لحاظ سے کمزور ایران نے، اپنی غیرت و حمیت کے پیشِ نظر، معراج فیض آبادی کے اس شعر کے مطابق ہی عمل کیا۔
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
صیہونی قیادت کو اتنا پتہ تو ضرور ہوگا کہ ایرانی قوم مسلمانوں کے شیعہ فرقے سے تعلق رکھتی ہے لیکن انہیں شیعہ فرقے کی چند انوکھی خصوصیات کا شاید بالکل علم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پندرہ سو سال پہلے ہونے والے سانحہ کربلا کے نتیجے میں خانوادہ رسول ۖ پر ہونے والے ظلم کی یاد کو آج بھی اس طرح زندہ جاوید رکھا ہوا ہے کہ جیسے یہ سانحہ کل کا واقعہ ہو۔ شیعہ کمیونٹی میں، ہرسال عشرہ محرم کے علاوہ بھی ماتمی مجالس کا ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ شاید ہی کوئی ہفتہ ذکرِ کربلا سے خالی گزر جاتا ہو۔ اسی زبردست دبا کے پیشِ نظر، سنی اسلام کے تاریخ پر بھی شیعہ فرقہ نے بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس سال ماہِ محرم کے آغاز سے صرف دو ہفتے قبل، اِس تکیہ پر سر رکھے ہوئی سوتی قوم کو اس طرح بیدار کر دینا، شاید صیہونی قیادت کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ سالہ پرانی رجیم سے سیاسی اختلافات رکھنے والے عام ایرانی بھی شاہِ ایران کے بیٹے کے ساتھ صیہونیوں کی تصویریں دیکھ کر موجودہ ایرانی قیادت کے ساتھ یکجا ہو گئے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے خلاف علمِ بغاوت لہرانا کوئی آسان کام تو ہر گز نہیں تھا لیکن پیام فتحپوری کے اس شعر کے مصداق، ایرانی قوم نے، ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔
نہیں ہیں آساں وفا کی راہیں قدم قدم ہے نئی قیامت
خرد کہاں اپنے کام آئی جنوں کو اب رہنما کریں گے
دو ہفتے پر محیط اس خونی جنگ میں، ایران کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوا لیکن غزہ کے نہتے لوگوں پر صیہونی فوج نے ظلم کی مزید انتہا کردی۔ ایک ہزار افراد کی شہادتیں تو اسی نامنصفانہ جنگ کے دورانیے میں ہی وقوع پذیر ہوئیں۔ آٹے کے ایک ایک تھیلے کیلئے ترستے ہوئے غزہ کے باسی، ایران پر مسلط کی جانے والی اس جنگ کے دوران، میڈیا کی اسکرینوں سے بالکل ہی غائب کر دئیے گئے۔ کاش انسانیت اور انسانوں کے بنیادی حقوق کے لئے بلند و بانگ نعرے لگانے والے، غزہ کے مظلوموں کیلئے بھی کچھ کر پاتے۔ چند دن پہلے، نیویارک شہر کا ایک بلدیاتی الیکشن جیتنے کے بعد ایک باعمل مسلمان، ظہران ممدانی نے جب فلسطین کے مظلوم افراد کے حق میں ایک توانا آواز بلند کی تو دنیا بھر کے مظلوموں کا کچھ حوصلہ بلند ہوا۔ اس نوجوان کو دیگر طبقاتِ فکر کے علاوہ یہودی مذہب کے لوگوں نے بھی اپنے ووٹ دیئے ہیں۔ یقینا یہ بڑی خوش آئند خبر ہے لیکن آجکل اسٹیبلشمنٹ کیلئے یہ نوجوان لیڈر ایک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے دیرینہ اصول و روایات بھلا کر ظہران ممدانی کو نومبر میں ہونے والے انتخابات سے ہر قیمت پر باہر کرنا چاہتی ہیں۔ اتفاق سے اس باعمل مسلم نوجوان کا تعلق بھی شیعہ فرقہ سے ہے۔ سانحہ کربلا کا بے پناہ اثر قبول کرنے والے ایرانی ہوں یا ظہران ممدانی ہو، ظلم و ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کو یہ عین حسینیت سمجھتے ہوئے، اپنے مقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ صیہونی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات پتہ نہیں کب سمجھ میں آئے گی۔ مولانا ظفر علی خان نے تو یہ حقیقت بہت پہلے اجاگر کردی تھی۔
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ لاشہ جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کرگیا تجھے خونِ رگ رسول ۖ
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
٭٭٭













