قارئین وطن! الحمدللہ تین بھر پور دن شہر اقتدار میں میں اور سپریم کورٹ کے مایہ ناز ایڈوکیٹ راشد لودھی صاحب گزار کر شہر لاہور کی سیاسی کیچڑ میں لت پت ہونے کے لئے دوبارہ وارد ہو گئے ہیں ایک زمانہ کے بعد بہت عمدہ ہمسفر نصیب ہوا ابھی ہم راستے میں ہی تھے کے بھیرہ میں تھوڑی دیر سستانے کے لئے رکے تو لودھی صاحب کی جانب ایک نوجوان لپکامصافے کے بعد پتا چلا کہ یہ چوہدری خرم ورک صاحب ہیں جنہوں نے شیخوپو رہ میں میاں جاوید لطیف کو ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرایا ہے نوجوان کو مل کر بڑی خوشی ہوئی اور یہ جان کر کہ ابھی میرے بزرگوں کی مٹی شیخوپورہ زرخیز ہے اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ قوم میں دم ہے ان کو گڈ لک کہ کر آگے بڑے کہ ہمیں بڑی جلدی تھی شعیب شاہین ایڈوکیٹ صاحب سے ملنے کی کہ ان کے ساتھ راشد لودھی صاحب نے مجھ سے ملانے کا وقت لیا ہوا تھا اسی دن ان کو اسٹے آرڈر بھی ملا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کہ خلاف کہ جس نے عوام اور ان کے حلقہ کے ووٹروں کی توہین کی تھی ڈاکٹر فضل کو جعلی طریقہ سے جتوا کر شعیب شاہین صاحب سے شہر اقتدار کے معاملے کو سمجھنے میں بڑا لطف آیا میں تو دس سال کی عمر سے اسٹیبلشمنٹ کی شب خونیاں دیکھ دیکھ کر اب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہوں ان کو گڈ لک کہا اور رخصت چاہء کے ان کو ملنے کے لئے ایک لمبی قطار انتظار میں تھی ۔ دوسری جانب ہمارے میزبان احتشام رفیق ملک صاحب جنہوں نے پی ٹی سی ایل ریسٹ ہاس میں ہمارا انتظام کروایا ہوا تھا انتظار کر رہے تھے اور ہم کو بارہ کوہ پہنچنا تھا لہازا کوہسار مارکیٹ کا پروگرام دوسرے دن پر ڈال کر ہم ملک صاحب کے پاس پہنچے جہاں پشاوری چپلی کباب کڑائی گوشت اور نبیظ کے ساتھ انتظار میں تھے ملک صاحب نے پر لطف کھانے کے ساتھ ساتھ شہر اقتدار کی نحوستوں کا ذکر چھیڑ دیا پھر رات گئے تک سیاست پر گفتگو ہوتی رہی ۔
عزیزان وطن!جیسے ہی صبح کی روشنی پر نظر پڑی تو جوش ملیح آبادی کا شعر لب پر گھوم گیا!
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوتِ حق کے لئے
اگر رسول نہ بھی ہوتے تو صبح کافی تھی
جلدی جلدی تیار ہوئے کہ ہم کو سپریم کورٹ آف پاکستان بار روم پہنچنا تھا جہاں میرے بھاء اور درینہ دوست طلعت خان صاحب ایڈوکیٹ اور دوسرے رفقا سے ملاقات منظور تھی ایک زمانے کے بعد سپریم کورٹ میں حاضری ہوئی تھی بہت سے پرانے اور نئے دوستوں سے ملاقات ہوئی ان سب سے سیاست پر اور ملکی حالات پر سیر حاصل گفتگو رہی ۔ اسی روز ذلفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے کیس لگا ہوا تھا وہاں پر بھٹو صاحب مرحوم کا نواسہ بلاول زرداری بھی تشریف لایا ہوا تھا جیسے ہی اس کی نظر راشد لودھی ایڈوکیٹ پر پڑی جو میرے ہمسفر تھے کو اپنے پاس بلایا اور پریس کانفرنس کے دوران اپنے قریب ہی رکھا ۔ اور میرا یہ حال کے دوسری طرف میرے نہایت ہی پیارے دوست عارف چوہدری ایڈوکیٹ سابق صدر اسلام آباد اپنے رفقا کے ساتھ مشہور گن اینڈ کنٹری کلب میں ظہرانہ پر ویٹ کر رہے تھے چوہدری صاحب ہمیشہ آوٹ آف دی وے جا کر مہمان نوازی کا فرض ادا کرتے ہیں اللہ پاک ان کو صحت والی درازء عمر عطا کرے اور ہر قدم پر ترقی ملے آمین۔ منگل کا دن بڑا مصروف گزرا لنچ کے بعد میاں ماجد بشیر ایڈوکیٹ اور سابق جج کے چیمبر میں ملاقات کا وقت مقرر تھا میاں ماجد صاحب ایک دبنگ شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے میرے سمیت راشد لودھی صاحب اور ہمارے میزبان احتشام رفیق ملک صاحب کو وطنِ عزیز کی سیاست پر سہرانہ گفتگو سے مسحور کیا دل نہیں کر رہا تھا ان کی محفل سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن ان کی مصروفیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اجازت لی ان سے ملاقات کا ایک اور سبب بھی تھا کہ میں راشد لودھی کا ہاتھ ان کی سرپرستی میں دینا چاہتا تھا ماجد صاحب بڑے ضرف کے مالک ہیں ہم سب دوستوں کو دروازہ تک الوداع کرنے آئے ۔ ماجد صاحب سے دوستی ایک خوبصورت گلدستہ کی مانند ہے سلامت رہیں اور کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے رہیں آمین !
قارئین وطن ! ابھی ہماری مصروفیت کا دور ختم نہیں ہوا ماجد صاحب کے دفتر سے اٹھے تو سیدھا کوہسار مارکیٹ پہنچے جب بھی میں اسلام آباد جاتا ہوں تو کوہسار مارکیٹ میں میری حاضری فرض ہے ۔ بس کوئی آدھہ گھنٹہ لیٹ پہنچے میرا پسندیدہ ریسٹورنٹ ٹیبل ٹاک ہے تو ویٹر نے بتایا کہ ساتھ والے ریسٹورنٹ کیفے ون میں حنیف عباسی اور خواجہ سعد رفیق پر چور چور اور مینڈٹ چور کے تین بہادر خواتین نے خوب نعرہ بازی کی اور دوران نعرہ بازی حنیف عباسی نے ان کی تصویر لینے کی کوشش کی جس پر ان کی خواتین کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی اور ایک خاتون نے آگے بڑھ کر حنیف کو چانٹا رسید کر دیا ہماری قسمت کے ہم تماشہ کے تماش بین نہ بن سکے خیر لودھی صاحب نے کوہسار مارکیٹ کے ماحول کو خوب انجوائے کیا اس شام کی آخری منزل بہت ہی نسطالیق اور پر وقار شخصییت مشہور انٹرنیشنل ٹینس پلئیر بڑے بھیا عمران صدیقی صاحب کے دولت خانہ عشائیہ پر پہنچے آہ آہ کیا مہمان نوازی تھی پہلے تو ایسا لگا کہ ان کے گھر نہیں بلکہ ایک نگار خانہ پر حاضری ہے بھابھی صاحبہ کا ذوق ڈیکوریشن کسی فرنچ ڈیزائنر سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے صدیقی صاحب کی پر تکلف مہمان نوازی کا کیا ذکر بلوری کنٹوں میں دور نبیظ چلا اور اس کے بعد بیگم صاحبہ نے کیا عمدہ پکوان دستر خوان پر سجوائے کہ ابھی تک مزہ زبان سے پھسلا نہیں اللہ پاک ان کو اور اہل خانہ کو صحت والی سلامتی اور خوب سے خوب والی کامیابیاں عطا کرے آمین ۔ شہر اقتدار جو ڈیپریشن میں ڈوبا ہوا ہے بس ایک کمی رہی کہ میں اپنے بہت ہی پیارے دوست علامہ تنویر قیصر شاہد صاحب سے ملاقات نہیں کر سکا ان کی طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے علامہ تنویر قیصر صاحب بہت بے باک اور دبنگ صحافی ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ میرے کالم نگاری میں مینٹر بھی ہیں اللہ پاک ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے کہ میدان صحافت کو ان کی بڑی ضرورت ہے ۔
قارئین وطن ! دو راتیں اور تین دن شہر اقتدار میں بھر پور گزار کر گھر کے بدو گھر کو لوٹے دیکھنے کو تو بظاہر بڑے بھر پور دن گزرے شہر اقتدار میں جو نحوستوں اور ڈپریشن میں ڈوبا ہوا ہے جس کو بھی ملے سب دبی دبی زبان میں تین چیفس کی غیر آئینی اور دستور کے منافی حرکتوں کا گلہ کرتے ملے جیسے ہی ہم شہر ڈیپریشن کی حدود سے باہر نکلے ہم دونوں ڈیپریشن میں مبتلا ہوگئے اور سارے راستے ملک کی سیاسی صورت حال پر گفتگو کر تے رہے اور سب سے کمزور حربہ استعمال کیا کے تین چیفس کو دل میں کوستے کوستے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی کہ اللہ خیر کرے ملک پاکستان کی ۔
قارئین وطن! لاہور پہنچے تو ڈپریشن کا پارہ اور چڑھ گیا یہ سن کر کے نواز شریف نیاسٹیبلشمنٹ سے اپنی بیٹی مریم صفدر کے لئے چیف منسٹری کی سیٹ مانگ لی ہے یارانِ سیاست کوئی ہے جو مجھ کو سمجھائے کہ یہ بندر بانٹ کس کھاتے میں ہے کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ، بن جائے نشیمن تو الوں اپنا بسیرا ڈال دیں اور وہ بھی ایسے الوں جن کو زبردستی جتوایا گیا ہو رات کی تاریکی میں ۔حبیب جالب نے کیا خوب کہا !
ضمیر بیچ کر مسند خریدنے والوں
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
ہائے یہ بات مقتدرانِ ریاست کو سمجھ کیوں نہیں آرہی ہے ایک اور طمانچہ ایک اور طمانچہ ہائی کورٹ بار الیکشن واہ فوج، براکیسی ، سول جوڈیشری ، نون لیگ، پیپلز پارٹی لیوش کھانے ٹرانسپورٹ سروس سب ہار گئے ایک بار پھر قیدی نمبر کے حکم پر اسد منظور بٹ کو والہانا کامیابی دے کر فروری کی یاد تازہ کردی ہے پلئیز آنکھیں کھول لیں انقلاب قدم قدم پر دستخط دے رہا ہے حامد خان گروپ کی جیت نے اس اندھیری رات میں امید کا چراغ جلایا ہے اور قوم کو باور کروا دیا ہے کہ وکلا نے نہ برادری دیکھی نہ نواز شریف کی دولت کی پروا کی بس انہہوں نے آئین اور قانون کی پاسداری کا علم بلند کیا ہے میں وکلا کی عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔ یقین جانیے اسد بٹ کی جیت نے نہ صرف پنجاب میں ڈپریشن کو دور کیا ہے بلکہ شہر اقتدار کے مقتدران کو بھی ایک پیغام بھیجا ہے کہ بس بھئی بس جیتنے والوں کو حکومت کا حق دیں اور قوم کو لوٹنے والوں کو مسلط مت کریں پاکستان ایک زندہ ملک ہے اس کو زندہ رہنے دیں ۔
٭٭٭