ایک مشہور محاورہ ہے ”سو پیاز بھی کھائے، سو جوتے بھی کھائے”۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال میں درآمدی حکومت خصوصاً شریفوں کو اسی صورتحال سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ عمران کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور اپنی حکومت کے قیام سے ہی لوہے کے چنے چبانے پڑ رہے ہیں، دوسری جانب عمران خان کی بتدریج بڑھتی ہوئی عوام میں مقبولیت (سیاسی مبصرین کے مطابق کسی بھی عوامی رہنماء کیلئے انتہائی ترین) کیساتھ IMF سے معاہدے کے ناطے سخت ترین فیصلے اور عوامی رد عمل مخلوط حکومت کیلئے حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔ حکومت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مترادف ا یسی سرنگ میں پھنس گئی ہے جس سے نکلنے کیلئے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔
دوسری جانب عمران خان اپنے کارڈز بڑی کامیابی سے کھیل کر نہ صرف امپورٹڈ و مخلوط حکومت کو ٹف ٹائم دے رہا ہے بلکہ مقتدرین سے براہ راست نیوٹرل ازم سے نکل کر عوام اور ملک کے مفاد میں عمل کرنے اور فوری و شفاف انتخاب کرانے کے مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے۔ بیرونی سازش کا عمرانی بیانیہ تو پہلے ہی عوامی جذبات اور کپتان سے جُڑنے کا وسیلہ بنا ہوا تھا، پیٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے ضروری میں اضافے، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، ڈالر کی بے مہا اُڑان اور کاروباری و مالیاتی اشاریوں پر موڈی جیسے اداروں کی منفی ریٹنگ نے نہ صرف عوام میں غیض و غضب پیدا کر دیا ہے بلکہ خود حکومت اور متعلقہ ریاستی اداروں میں بھی بہت سے سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔ کپتان نے اس بیانیہ کو بھی کامیابی سے اپنا کر اپنی عوامی مقبولیت کی سند پُختہ کر دی ہے۔ اتوار کے روز عمران خان کی کال پر ملک کے ہر بڑے، چھوٹے شہر، دیہات و قصبوں میں عوام کے جم غفیر اور مہنگائی کیخلاف احتجاج کپتان کی جدوجہد اور عوامی حمایت کا ایک اور سنگ میل ہے۔
موجودہ حکومت کی پرفارمنس (بقول وزیراعظم، وزیر خزانہ مشکل فیصلے)، وفاق اور پنجاب میں غیر مستحکم حکومت کا وجود و ایڈمنسٹریشن اور آئینی و قانونی ترامیم نے اسے بیک فٹ پر کھڑا کر دیا ہے اور اس کے بیانات و اقدام اسے غیر مقبول کر رہے ہیں بلکہ خود اس کی اپنی صفوں میں مختلف سوچ کی دراڑیں ڈال رہے ہیں۔ وفاقی وزیر کا پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے اسباب میں نیب میں اضافی ججز کی تعیناتی اور ن لیگ کیخلاف سزائوں کے خدشات کا بیان اس کی واضح مثال ہے۔ا س بیان سے جہاں خود حکومتی صفوں میں ہیجانی اور متنازعہ کیفیت سامنے آئی ہے وہیں فیصلہ ساز بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور نظر آتے ہی۔ کپتان نے خرم دستگیر کے اس بیان کو سچائی قرار دیتے ہوئے اپنا مؤقف دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ مخالفین اس کی حکومت سے NRO-2 مانگتے رہے، اس نے نہیں دیا تو سازشی حکومت نے نیب کیلئے من مرضی کی ترامیم کر کے این آر او کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ انہیں کامیاب نہیں ہونے دیگا۔ کپتان کا یہ بیانیہ بھی زبردست عوامی پذیرائی کا حامل بنا ہے اور مخالفین کے سیاسی تابوت کیلئے ایک اور کیل ٹھونکے جانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہمارا سکول کا دور تھا، سابق صدر ایوب خان کیخلاف عوامی تحریک زوروں پر تھی، ملک بھر میں احتجاج زوروں پر تھا۔ اس تحریک میں ترقی پسند رہنما ایک انقلابی نظم کو اپنی تقاریر میں دہرایا کرتے تھے جس کا عنوان عوام کے جذبات کا عکاس بن کر عوامی نعرہ بن چکا تھا، جاگ اٹھے ہیں میرے دیس کے مظلوم عوام، عجیب اتفاق ہے کہ اُس دور کے اور موجودہ حالات کا تقابلی موازنہ کرتے ہوئے وہ نظم ہمیں شدت سے یاد آرہی ہے۔ اس نظم کا ایک بند قارئین کی نذر ہے!
اب یہاں جبر کی سرکار نہیں چل سکتی
آل شدّاد کی یلغار نہیں چل سکتی
مل کا مالک ہو یا جاگیر کا والی کوئی
اب شہنشاہی زردار نہیں چل سکتی
اب کوئی رکھ نہیں سکتا مری ملت کو غلام
جاگ اٹھے ہیں میرے دیس کے مظلوم عوام
اس احتجاجی اور انقلابی بند کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس کا ایک ایک مصرعہ اسی طرح آج کے حالات پر صادق آتا ہے جس طرح دور ایوبی میں تھا۔ آج کے حالات میں دنیا کی عالمی طاقت کا کردار شداد کا نظر آتا ہے اور اس کی عالمی حکمرانی کی بنیاد جبر پر ہے اور اسی دبائو پر ہمارے فیصلہ ساز نیوٹرل ہونے پر مجبور ہیں۔ منتخب حکومت کو گرانے میں ملوں اور سرمائے جاگیروں اور زر کے حصول کے پرستار فائدے اور حق حکمرانی پر قابض ہیں اور اس سازش کا شکار عمران اپنے عزم، اجتہاد اور متعینہ جدوجہد کی بدولت عوام کے دلوں پر راج کرتے ہوئے 22 کروڑ پاکستانیوں کی آواز بن چکا ہے اس سچائی پر کوئی شبہ نہیں کہ حق کو دبایا نہیں جا سکتا۔ انسانی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ظلم و جبر اور غیر فطری اقدامات کو اپنے انجام تک پہنچنا ہوتا ہے، حق اور سچائی کی فتح لازم ہے۔
عمران خان کی مستقل مزاجی، واضح تحریک اور حق کیلئے آواز بلند رکھنے نیز عوام کے موجودہ حکمرانوں کیخلاف شدید رد عمل اور عمران خان کی تاریخی حمایت اور تقلید سے حالات میں خوشگوار تبدیلی کے آثار واضح ہو رہے ہیں۔ بیک ڈور چینلز کے رابطے، اعجاز الحق کے توسط سے طرفین کے درمیان گفت و شنید کی راہیں کھولنا اور بجٹ کے بعد انتخابات کے حوالے سے واضح اعلان اور اقدامات کی خبریں اس امر کی تمہید ہیں کہ تاریکی میں روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ یقیناً ملک و قوم کی سیاسی، معاشی، آئینی ابتری کو بہتری کی راہ پر لے جانے کیلئے عمران اور کھلاڑیوں کی جدوجہد مثالی اور قابل تحسین ہے لیکن اس میں مہمیز اور کامیابی کا باعث وطن عزیز کے عوام کی تاریخی شرکت و تحریک ہے جو عمران خان کی حمایت کیلئے خواب خرگوش اور مایوسیوں سے نکل کر اپنی آواز سے ایوانوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں گویا اب بدل جائے گا صدیوں کا یہ فرسودہ نظام!
جاگ اٹھے ہیں میرے دیس کے مظلوم عوام اور یہی عمران خان کا مقصود ہے۔
٭٭٭