بابر اعظم نے ہندوستان فتح کرلیا!!!

0
556
حیدر علی
حیدر علی

بنگلہ دیش کے انگریزی اخبار ”دی ڈیلی اسٹار ” میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کیپٹن بابر اعظم کے بارے میں اتنے سنہرے الفاظ کا سہر ا یقینا ذہن کو کالی گھٹاؤں سے نکال کر پُر لطیف فضاؤں میں ڈبو دیتا ہے، ”دی ڈیلی اسٹار ” لکھتا ہے کہ سانسوں کو تھام دینے والی 10 وکٹوں کی اپنے ایک انتہائی بدترین حریف بھارت سے فتح حتی کہ ایک کمنٹیٹر کا بھی پسندیدہ کھلاڑی ہے اور جس نے اُسے ” شہنشاہ اعظم ظہیرالدین بابر جیسے جس نے 16ویںصدی میں ہندوستان کو فتح کرکے سلطنت مغلیہ کی بنیاد ڈالی تھا قرار دے دیا ہے،پاکستان کیلئے نازاں قسمت کہ 27 سالہ بابر اعظم کے غیر متزلزل اقدام کرکٹ کے میدان میں انتہائی ثابت قدمی سے براجمان ہیںتاہم پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوگئی اور وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی لیکن پاکستان کی ٹیم نے اپنے مد مقابل آسٹریلیا کی ٹیم کے اِس طرح چھکے چھڑوادیئے جو وہ تادم حیات نہ بھول سکے گی اور اُسکا اندازہ اُسکے کھلاڑیوں کی خوشی کو دیکھ کر ہوسکتا ہے جس کا وہ اظہار میچ جیتنے کے بعد کررہے تھے ، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ اپنی زندگیوں کا آخری میچ جیت گئے ہوںلیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستان کی ٹیم سے اُنہیں پھر سابقہ پڑیگا اور وہ اُسی طرح حساب برابر کردے گی جس طرح اُس نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ کیا ہے، آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کی ٹرافی بھی دبوچ لی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مابین میچ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پاکستان اور آسٹریلیا کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے ، میرے خیال میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کیلئے بھارت کی فلم لگان مشعل راہ ہونی چاہئے جس میں دیہاتیوں پر مشتمل کھلاڑیوں جنہیں ہندی بھی صحیح طور پر بولنے نہیں آتی تھی انگریز بابوئوں کی ٹیم کو جو انگلینڈ سے کھیلنے آئی تھی اُسے شکست دے دی تھی، تاہنوز پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شہری بابوئوں کا غلبہ طاری ہے جو کھیل کے دوران پریشر کا شکار ہوجاتے ہیں، پاکستان کی قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے قریب کسی عارضے کا شائبہ عشرے عشرے تک نہ آنا چاہئے جو دیہاتوں سے منتخب شدہ کھلاڑی ہی اِس کی ضمانت دے سکتے ہیں، قد اُنکا 6 فٹ سے زائد ہو تو کوئی مذائقہ نہیں تاہم ایک میل کے فاصلے کو وہ 5 سے 6 منٹ میں طے کر سکتے ہوں اور جب وہ باولنگ کرتے ہوں تو گیند کی رفتار 100 میل فی گھنٹے ہو جیسے کہ شعیب اختر کی تھی ،وہ موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے عکاس نہ ہوں جسکے کھلاڑی جب بال پکڑنے کیلئے دوڑتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوں ، سارے کھلاڑیوں کو امریکا میں ہونے والے کالج فٹبال کی ویڈیوز دکھائی جانی چاہئے اور اُنہیں یہ بتانا چاہئے کہ وہ کھلاڑی بھی انسان ہوتے ہیں ، رہا اُن کی تربیت کا مسئلہ تو یہ بھی کوئی زیادہ دشوار کن نہیں، ہر کھلاڑی کے ساتھ ایک ترجمان ہو جو پنجابی، بلوچی ، پشتو اور سندھی جانتا ہو، ایڈیٹ کی ایسی ٹیم ہی ہمیں ورلڈ کپ جتواسکتی ہے۔
قطع نظر پوسٹ گیم سنڈروم کے میرے دِل کے گوشہ میں بھی اُن پاکستانی خواتین کیلئے نرم گوشہ ہے جو پاکستان کی شکست پر زارو قطار رورہی تھیں لیکن میں نے اُن پاکستانی خواتین کو بھی دیکھا جن کے چہروں پر قہقہے اور مسکراہٹ بکھر رہیں تھیں بلا شبہ میں دوئم الذکر خواتین کی صف میں شامل ہوں ، ہمیں کرائسس مینجمنٹ کا سلیقہ سیکھنا پڑیگا۔ رونے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اُس میں اور زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور پھر ہمیں یہ کیوں فراموش کر دینا چاہئے کہ اِس ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان نے بہت کچھ حاصل کیا ہے ، پاکستان نے بھارت ماتا جو اپنے آپ کو ایک ناقابل تسخیر جتھا سمجھتا تھا ، پاکستان کی ٹیم نے اُسے پاش پاش کردیا ، پاکستان کی ٹیم نے نہ صرف اپنے پڑوس ممالک کی ٹیم کا حلیہ بگاڑ دیا
بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک اسکاٹ لینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کو تہس نہس کردیا ، پاکستان نے آسٹریلیا کی ٹیم کو بھی آڑے ہاتھ لیا لیکن وہ بس کسی نہ کسی طریقے سے ہاتھ سے نکل گئی لیکن یہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے نشاة ثانیہ کا دور ہے، ہماری کرکٹ ٹیم کو آگے بڑھنا ہے اور قوم کا نام روشن کرنا ہے۔
کرکٹ کی دنیا کی یہ ریت ہے کہ جب کسی ٹورنامنٹ میں کسی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اُسکے خلاف اُس کے ملک میں ایک طوفان چہ مگوئیاں بپا ہو جاتا ہے جس کی زد میں آ کر بے شمار کھلاڑی خس و خاشاک کی طرح اُڑ جاتے ہیں ، اِسی ریت کے بھینٹ سب سے قبل بھارتی کرکٹ ٹیم کے کوچ اور کیپٹن چڑھ گئے ہیں، فارغ ہونے والے کوچ روی شاستری نے بلند و بانگ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیموں میں شامل ہے لیکن صرف شکست اُس کا مقدر ہے ورنہ وہ بھی ضرور ورلڈ کپ کے ٹرافی کو بوسہ لیا ہوتا ، اُن کا دعویٰ محض ایک خام خیالی کا مظہر ہے، ورنہ حقیقت میں نہ ہی اُنکے دور میں اور نہ ہی کیپٹن ویرات کوہلی کی کیپٹن سی میں بھارت کبھی ورلڈ کپ کے قریب بھی پہنچا ہے البتہ بھارت میں کرکٹ کے تمام ارباب حل و عقد یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ورلڈ کپ میں اُس کی ٹیم کی شکست کی وجہ آئی پی ایل میں اُسکے کھلاڑیوں کی انتہائی شدت سے وابستگی ہے اور اُنکے ملک کا آئین آئی پی ایل کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ٹھیک ہے انگلینڈ کے سوکر ٹیم کا بھی کچھ یہی حال ہے، انگلینڈ میں دنیا کے بہترین سوکر کے کھلاڑی ہیں لیکن اِس کے باوجود انگلینڈ ورلڈ کپ آج سے 55 سال قبل جیتا تھا، وجہ اِس کی یہ ہے کہ سوکر کے تمام بہترین کھلاڑی انگلینڈ کے کلبوں سے کنٹریکٹ کئے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ملک کیلئے نہیں کھیل سکتے ہیں ، کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر اُنہیں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑیگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here