چابی والے کھلونے!!!

0
10
شبیر گُل

بچپن میں چابی والے کھلونے ہوا کرتے تھے۔ جنکی چابی گمانے پر کھلونے ایکٹ کرتے تھے۔ آج وہ کھلونے سیاسی چگادڑوں کی شکل میں دستیاب ہیں۔ان کھلونوں کی چابی فوجی جرنیلوں اور (جی ایچ کیو) کے پاس ہے۔ان کرپٹ عناصر کی جیسے ہی چابی گھمائی جائے فورا دم ہلاتے ہیں۔یہ چابی والے کھلونے آجکل جنرل خافظ کے مطیع و فرمان ہیں ۔ حکمران طبقہ کی بداعمالیوں،کرپشن اور الیکشن فراڈ کو لیگلائز کرنے کیلئے فوجی اسٹبلشمنٹ کے بوٹ چاٹ چکا ہے۔جرنیلوں نے ان ضمیر فروشوں سے چھبیسویں آئینی ترامیم پاس کروا لی ہے۔جس میں آئین، قانون، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے ہاتھ باندھے گئے ہیں۔ان ترامیم میں انکے کالے کرتوتوں کو لیگل تخفظ فراہم کیا گیاہے۔کئی ایم این اے اورسینٹرز ایجنسیوں کی تحول میں رہے اور انکا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کیا گیا۔تاکہ ان سے بل کی حمائت میں ووٹ پورے کرسکیں۔ایجنسیوں کی فسطائیت سے ممبران قومی اسمبلی کی فیملیز مخفوظ نہیں ہیں۔ کسی کے باپ،کسی کے بھائی کو اٹھا لیا گیا ۔اس فاشزم نیجمہوریت کی قبر کھود دی ھے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جمہوریت کا رونا روتے ہیں۔لیکن موجودہ ترامیم میں جس طرح جرنیلی مافیا کے ڈرافٹ اور مسودیکو من و عن قبول کیا گیا۔ آئندہ دونوں پارٹیوں کے سیاسی جنازے کو کندھا دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔طوفان بدتمیزی ہے،نہ آئین ہے ، نہ قانون ہے۔ ایجنساں اپنی فسطائیت میں کھل کر سامنے آچکی ہیں۔جو کام ایوب دور میں شروع ہوا۔اسکا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ فوجی گملوں میں پرورش پانے والے یکجا ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے جس گملے کی پیداوار ہیں وہاں کھلنا انکا مقدر ہے۔ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھ کر اندازہ لگانا آسان ہے ۔ کہ مسلم اُمہ ایک پیج پر اکٹھی کیوں نہیں ھو سکی۔کیونکہ عہدوں ،اقتدار کا لالچ،اور بے حسی نے ضمیر مردہ کردئیے ہیں۔انکی وجہ سے مسلمان منتشر اور کٹ رہا ھے۔کشمیر ھو یا فلسطین ، شام ھو یا لبنان، اندرکے غدار ۔دشمن سے ملکر اسے طاقتور بناتے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی کلچر بھی ایسے ہی غداروں سے بھرا پڑا ہے۔ جمہوریت کے پھوکے فائر کرنے والے نواز شریف،زرداری ، فضل الرحمن اور ایم کیو ایم ،وہ بکا بکرے ہیں جنہیں کبھی بھی ٹیشو پپیپر بنایا جاسکتاہے۔یہی وہ کالے چہرے ہیں جنہوں نے فوجی بوٹ چاٹ کر اپنا چہرہ اور ملکی سیاست کو مسخ کیاہے۔یہ دوغلے سیاستدان شائد آئینہ میں گھنانا چہرہ نہ دیکھتے ہوں۔ جس پر ہزاروں لعنتیں برستی ہیں ۔ اور جن کی گردنوں پر شہدائے پاکستان کا خون ھے۔ گوالمنڈی کے دیسی نیلسن مینڈیلا ووٹ کو عزت دلاتے دلاتے بات ۔بوٹ چاٹنے پر ختم ھوئی۔ لگ رہا ہے کہ جرنیلوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔اسی لئے بات مراسیوں کی بھرتی بھرتی تک پہنچ چکی ہے۔مراسیوں کی اماں اس صورتحال میں پریشان تھی ۔لیکن مراسیوں کے باپ ایک اور ترمیم لانا چاہتے ہیں ۔جس میں جرنیلوں کے مخالفین کے مقدمات کو آرمی کورٹس میں لایا جائے گا۔
قارئین!۔ فوجی اشرافیہ نے سیاسی اشرافیہ سے ملکر قانون و عدالت کو دفن کردیا ہے۔ ماضی کیطرح موجودہ چیف جسٹس بھی جرنیلی بوٹ کا تلوہ ثابت ھوئے۔جب فیصلے (جی ایچ کیو ) کی مرضی سے ترتیب دئیے جائینگے ۔ تو پارلیمنٹ بے وقعت ھوگی اور معاشرتی بگاڑ کوئی روک نہیں سکے گا۔ قوم جان چکی ہے کہ یہ منافق لوگ اپنے حلف سے دغا کرتے ہیں۔آئین سے غداری اور ملک سے بے وفائی کرتے ہیں۔یہ چابی والے کھلونے اور کالے چہرے مملکت خداداد کے مجرم ہیں۔ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ بنانے پرمکمل اتفاق سے قاضی کی بدنیتی ظاہر ھوگئی۔آئینی بینچ میں7مستقل ججزز ہونگیجنہیں ہٹایانہیں جاسکے گا، ججزآئینی پٹیشن کیعلاوہ دیگرمقدمات بھی سن سکیں گے،آئینی بینچ کیججزکی تقرری کااختیارجوڈیشنل کمیشن کو ہوگا۔ارکان کیچنامیں سپریم کورٹ کاکردارختم کرنیکی تجویز۔ ،ارکان کیچنامیں عدم اتفاق پرحتمی فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کریگی،ارکان کیچنامیں عدم اتفاق پرکونسل کااکثریتی فیصلہ تسلیم ہوگا، اوورسیز پاکستانی الیکشن لڑنیکے لئیاہل قراردییجائیں گے۔ اوورسیزپاکستانی الیکشن میں منتخب ہواتو3ماہ میں دہری شہریت ختم کرنیکاپابندہوگا۔ الیکشن کیدوران اگراوورسیزپاکستانی ملک میں ہوں توووٹ ڈال سکیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ کچھ صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ اصل نہیں ۔اصلی مسودہ خلائی مخلوق کے پاس تھا ۔جسے آنا فانا پیش کرکے منظور کرایا گیا۔اسی لئے ارکان اسمبلی و سینٹ اٹھائے گئے ۔تاکہ وردی کا بھرم رہ سکے۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی گردن پر چھرا پھیر کر سیاسی خود کشی کی ہے۔یہ چونکہ نقلی اسمبلی کی پیداوار ہیں۔اسی لئے گھبرائے ہوئے ہیں۔اصلی سے یاد آیا شیخ رشید اکثر کہتے ہیں کہ میں اصلی اور نسلی ھوں۔یاد رہے کہ نسلی مر جانا اور گردن کٹوانا قبول کرلیتا ھے۔جھکنا گوارا نہیں کرتا۔ بہرحال حسب معمول مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے آنکھوں کا تارا رہے۔مولانا نے خدا جانے کتنی وزارتوں اور مراعات کے بدلے اپنا تن من اور دھن حسب معمول بیچا۔مولانا ڈیزل اور ایم کیو ایم اسٹبلشمنٹ کی ریزرو فورس ہے۔ان غداروں کو جب مرضی خریدا جاسکتا ہے۔ میں کبھی نہیں مانتا تھا کہ ڈیزل یوتھیوں کا ساتھ دے گا۔ ڈیزل مذہبی جماعتوں کے اتحاد ۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی دھوکہ دے چکا یہ اقتدار کابھوکا خونخوار درندہ ھے جس نے ہمیشہ دین فروشی کا فریضہ انجام دیا ھے۔ مولانا فضل الرحمن اسمبلی کے فلور پر فرما رہے تھے کہ آج تک ملک میں کوئی اسلامی قانون نہیں بن سکا۔ بندہ ان موصوف سے پوچھے کہ مولانا صاحب آپ جھنڈے والی گاڑی سے اترنا پسند نہیں کرتے ۔ ہر دور میں ان ظالم درندوں اور منافقوں کی امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔تو گلہ کس سے کرتے ہیں۔ آپ شاید گریبان میں نہیں جھانکتے۔ جو بدبودار اور تعفن زدہ ہے۔ زرداری ڈیموکریسی،سول سپرمیسی کی بات کرتے ہیں۔اورڈیموکریسی کے خلاف بل کو راتوں رات منظور کراتیہیں۔کرپشن مافیا کا سردار نواز شریف بوٹوں میں بیٹھ کر جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے بوٹ کو عزت دینا مناسب سمجھا۔یہ وہ کالے چہرے ہیں جنہیں اقتدار سے باہر جرنیلوں کیمظالم یاد آتے ہیں۔مگر یہی بیساکھیاں انکا سہارا ہیں۔یہ وہ بے ضمیر درندے ہیں جنہوں نے سسٹم کو بدبودار اور سیاست کو متعفن کیا ہے۔ کرپشن اور بددیانتی موجودہ نظام اور فرسودہ سسٹم کیوجہ سے ہے۔موجودہ رجیم نے معاشی تباہی کے علاوہ تمام اخلاقی اور انسانی قدروں کو پامال کیا ہے۔جو سسٹم آخری ہچکیاں لے رہاتھا۔جسے ڈیزل اور ایم کیو ایم نے گیس فراہم کی۔یوتھئیے گزشتہ دو ہفتے مولانا ڈیزل کی تعریفوں میں آسماں سے قلابے ملا رہے تھے۔ میں دوستوں سے کہتا تھا چند دن ٹھہرئیے ۔ گالم گلوچ برگیڈ مولانا ڈیزل کی سوشل میڈیا پر تنبی اتارنے والے ہیں۔ کیونکہ مولانا اقتدار سے باہر رہنے کو گناہ تصور کرتے ہیں۔ آئیندہ چند ہفتوں میں مولانا ڈیزل ایک مرتبہ پھر یہودی ایجنٹ کا نعرہ بلند کرینگے۔ بہر حال یہی ہماری سیاست کے معتبرنام ہیں ۔ جنکا کردار منافقانہ ۔ عمل کافرانہ ۔ سر پر عمامہ ۔مظلوم قوم کے منہ پر طمانچہ ہے۔اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کیطرف بڑھ رہی ہے۔اور ہم اپنے نظریات کو اپنے ہاتھوں دفن کررہے ہیں۔
قارئین! خطے میں بدلتے حالات کے پیش نظر ملکی سمت کا تعین بہت ضروری ہے۔ بھارت خطے میں فوجی اور معاشی طاقت بن رہا ھے۔ ھم اندرونی خلفشار میں گھیرے ہیں۔پاکستان قدرتی وسائل، تیل کے ذخائر، سونے، تانبے اور معدنیات سے مالامال ملک ھے۔ جہاں گوادر جیسی بندرگار موجود ہے ۔اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ پاکستان کا مستقبل گوادر کے ساتھ جڑا ھے۔ اس پر گزشتہ کئی سال سے چائنیز انجئنیرز کام کررہے ہیں۔بھارت اور امریکہ کو گوادر پراجیکٹ کھٹکتا ہے ۔انٹیلی جنس اداروں کے بقول بلوچستان میں چینی انجینئرز کا قتل، سیکورٹی اداروں پر حملے اور دہشت گرد ی کیواقعات کے پیچھے یہی دو ممالک ہیں۔ جو دہشتگرد تنظیموں کو فنڈنگ کرتے ہیں۔مقامی آبادی کو جابز کی فراہمی ۔مقامی قیادت کی انوالومنٹ گوادر پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کے سیکورٹی ادارے اور اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں۔کچھ سیاسی جماعتیں گوادر پراجیکٹ کی حمائیتی اور کچھ مخالف ہیں۔جس وجہ سے یہ پراجیکٹ بار بار روک دیا جاتا ہے۔اس پر اکتفا ضروری ہے۔وگرنہ اسکا حشر کالا باغ ڈیم جیسا ھوگا۔گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان سے چھ ہزار ارب ڈالرز کے تانبے کے ذخائر ملے ہیں۔ تیل کے ذخائر ملے ہیں۔ جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اسکے لئے سنجیدہ،ایماندار اور محب وطن لیڈرشپ کاہونا بہت ضروری ہے۔ادارے پولیٹیکسز ہیں ۔ہر بڑے پراجیکٹ میں جرنیل اور بڑے سیاستدان پارٹنرز ہیں۔ اس لئے کرپشن اور بے برکتی ہے ۔پاکستان سونے، تانبے، کوئلے ، تیل ، پتھر اور معدنیات سے مالا مال ملک ھے ۔ اسکی جغرافیائی حدود دنیا کے سینٹر میں ھے ۔ گوادر کی بندرگاہ کی اسی لئے بہت اہمیت ہے۔ کیونکہ یہاں سے وسط ایشیائی، یورپی منڈیوں تک مال کی ترسیل میں بہت آسانی ھوگی ۔ ریکوڈک میں زیر زمین سونے کے ذخائر پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے اللہ کا انعام ہے۔ قوم سونے کے ذخائر سے فی الحال فائدہ نہیں اٹھا سکی۔حکمران طبقہ ہر ڈیل میں کمیشن کو ترجیح دیتا ہے۔ ان ملک فروشوں کو کمیشن بیرون ملک فراہم کی جاتی ہے، یہ باہر جائدادیں بناتے ہیں۔ اسی لئے جب زادرای حکومت میں نہ ھو تو اسکا مسکن دوبئی اور شریف خاندان کا لنڈن ہے۔جنرل باجوہ بلجئیم، جنرل راحیل شریف سعودیہ عرب ، جنرل کیانی آسٹریلیا۔ان سے سوال پر غداری اور ملک دشمنی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ہم ہر جگہ قرضے مانگتے ہیں۔ دوست ممالک پاکستان کوقرضہ دینے میں ہچکچاتے ہیں۔ بیرونی قرضوں سے ملک معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ قرضوں نے ہماری جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔سیاسی قیادت کو عوامی فلاح اور ملکی ترقی سے کوئی غرض نہیں۔کرپشن ، بددیانتی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے نوجوان نسل کو اداروں کے خلاف لا کھڑا کیا ھے۔ ظالمانہ نظام تعلیم نے نوجوان سے قلم چھین کر بندوق اور ڈرگ تھما دی ہے۔اس سسٹم سے دہشت گردی کو فروغ ملاہے۔ جب بھی ملک کی اکانومی سنبھلتی ہے،دہشت گردی سر اٹھا لیتی ہے۔اللہ رب العزت پاکستان کو بار بار سنبھلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔گزشتہ ہفتے شنگھائی کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے ۔اس سے ترقی کی راہیں کھلیں گی۔شنگھائی کانفرنس کی لیڈرشپ کا پاکستان میں آنا خطے کی سیکورٹی اور تجارت کے لئے موثر ثابت ھوگا۔سیاسی استحکام ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔ایران،آئزبیجان اور کئی ممالک پاکستان سے لڑاکا طیارے ،میزائیل اور اسلحہ خریدنا چاہتے ہیں ۔لیکن ھمارا ویثرن صرف قرضوں کا حصول ہے۔پاکستان دفاعی میدان میں مسلم دنیا کو اسلحہ کی فراہمی کرسکتا ھیمگر حکمران طبقہ کشکول لئے اپنے عزت و آبرو بیچ رہا ہیں۔پاکستان کاٹن انڈسٹری میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سرجیکل انڈسڑی،لیدر انڈسٹری میں بڑا ملک ہے۔خالانکہ ملکی سیاست میں مکروہ چہروں کا سارا زور مخا لفوں کو ننگا کرنے پر رہا۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے اکیڈیمی میں عسکری تربیت کے ساتھ بے حیائی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ایجنسیاں کیمرے لگاتی ہیں، ننگی وڈیوز بناتی ہیں۔جن کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔موجودہ رجیم نواز،
شہباز،زرداری،بلاول انہی ایجنسیوں کے چابی والے کھلونے ہیں۔اقتدار کے لئے ہر وہ کام کررہے ہیں جو بھارت کشمیر میں اور اسرائیلی غزہ میں کررہے ہیں۔ پاکستان کو فوجی طالع آزما بار بار ڈستے ہیں۔آئین کو معطل کرتے ہیں۔آج ایک بار پھر یہی عمل دہرایا جارہا ہے۔اس کلنگ اور لعنت میں سیاسی پنڈت بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ان غداروں سے جان چھڑانے کے لئے محب وطن اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے ۔ جو ان قومی درندوں کو الٹا لٹکا سکے۔اللہ رب العزت پاکستان کے ان غداروں کو نیست و نابود فرمائے۔انکو آنے والی نسلوں کیلئے نشان عبرت بنائے ۔پاکستان کو ان جانوروں سے مخفوظ فرمائے۔آمین ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here