کیا مسلمانوں کا قاتل اب تک روپوش ہے؟

0
104
حیدر علی
حیدر علی

خوف و ہراس جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے، نیو میکسیکو کے علاقے البقریق جہاں کے تین مسلمان پراسرار طور پر دس دِن کے مختصر عرے میں موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے ہیں، چوتھا مسلمان دوسری واردات سے تقریبا”چند ماہ قبل گولی کا نشانہ بنا تھا، امریکا میں سکون پذیر مسلمانوں کا خوف سے یہ عالم ہوگیا ہے کہ بعض تو گھر سے نکلنے کی توبہ کھالی ہے اور بعض نقل مکانی کیا نقل ملک کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں، بعض نے جو اپنے گھر کو پاکستان میں اونے پونے رشتہ دار کو فروخت کیا تھا اُن سے دوبارہ واپس خریدنے کی خواہش ظاہر کردی ہے، رشتہ داروں نے پاکستان میں روپے کی قیمت ڈھلوان سے پھسلنے کی وجہ کر چار گنا زیادہ بولی لگارہے ہیں۔بلا شرکت غیرے ہر مسلمان کے گھر کے کچن میں دنیا کا نقشہ آویزاں ہوگیا ہے، اور ہر ایک کی زبان پر جائیں تو جائیں کہاں کا ورد جاری و ساری ہے جو مسلمان گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں یا اُنہیں دفتر جانا ہوتا ہے اُن کی عورتیں اُن کے بازو ںمیں امام ضامن باندھ دیتی ہیں، بعض نے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی گاڑی کو مع اہل و عیال کے ساتھ میکسیکو کی جانب ڈرائیو کرنا شروع کردیا، میکسیکو کی حکومت نے صورتحال پر غور و خوض کرنے کیلئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ کابینہ کے اراکین نے یہ فیصلہ کیا کہ ہزاروں مسلمان جو کوچ کرکے آئے ہیں اُن کے اخراجات کیلئے امریکا سے رقم طلب کی جائے اور اگر امریکا دینے پر راضی نہ ہو تو سعودی عرب سے رابطہ کیا جائے ، کیونکہ سعودی عرب ہی مسلمانوں کا مائی باپ ہے، پاکستانیوں کی اکثریت جو البقریق کے شہر میں شلوار قمیض پہن کر دندنایا کرتی تھی اچانک سوٹ اور ہیٹ پہن کر گھومنا شروع کردیا ہے اور وہ ہر ایک کو ایسکیوز می ، ایسکیوز می کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں، اُنہیں جب بھی شبہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اُن کا تعاقب کر رہا ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور گذرنے والے شخص کو بتاتے ہیں کہ میں ذرا سورج کا مشاہدہ کر رہا ہوں، ایک شخص نے تو یہ جواب بھی دے دیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ شاید ناسا میں ملازمت کرتے ہیں۔
اِس تشویشناک صورتحال کا مرکز و محو ر جیسا کہ بتایا گیا ہے ایک 51 سالہ افغانی شخص محمد سعید ہے جو امریکا میں چھ سال سے مقیم ہے، محمد سعید افغانستان میں امریکی فوج کیلئے ترجمان کے فرائض انجام دیا کرتا تھا اور اُسی خدمت گزاری کی بدولت اُسے فیملی کے ساتھ یہاں آنے کی اجازت مل گئی تھی اگرچہ امریکی میڈیا نے اُس کے گرد ایک جرائم پیشہ فرد کا حصار چڑھانے کی کوشش کی ہے ، لیکن تاہنوز بے شمار سوالات کے جوابات تشنہ طلب ہیں، مثلا”محمد سعید نے بذات خود اقبال جرم نہیں کیا ہے، دوئم اُس کی فیملی کے افرادبشمول اُس کی بیٹی لُبنا سعید جن سے اُس کے تعلقات خون خرابہ تک پہنچ چکے تھے ، اِس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا ہے کہ محمد سعید ایسے جرائم کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے لہٰذا پولیس اور دوسری سراغ رساں ایجنسیاں محض مفروضے کی بنیاد پر پیش رفت کر رہی ہیں اور جنہیں کسی مصری یا بنگالی پولیس کے ایجنٹ کی رہنمائی حاصل ہے جو اپنے پروموشن یا شہرت کیلئے ایسی حرکت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر ٹی وی پر ایسی خبروں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اِس بنیاد پر 20 سال قید کاٹنے کے بعد رہا ہوجاتا ہے کیونکہ جس جرائم کی اُسے سزا ہوئی تھی وہ اُس نے کیا ہی نہیں تھا۔ امریکی جیل میں ایسے افراد خصوصی طور پر مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں جو جیل میں ایسے جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں جس کے وہ سرزد نہیں ہوے تھے۔نیو میکسیکو کی پولیس نے محمد سعید کو چار مسلمان کے قاتل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اِس ضمن میں پولیس کے بیانات متضاد ہیں۔ پولیس نے محمد سعید کی گرفتاری کے بعد جو وجہ بتائی تھی پولیس اب خود اُس سے مُکڑ گئی ہے اور پولیس کا موقف ڈانوا ڈول ہوگیا ہے، پولیس نے ابتدائی طور پر یہ افشا کیا تھا کہ محمد سعید نے چار مسلمانوں کا قتل صرف اِس وجہ کر کیا تھا کیونکہ اُنہوں نے اُس کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کی وجہ کر اُس کی بیٹی نے ایک شیعہ سے شادی رچالی تھی، سید محمد کو اِس بات کا سخت صدمہ پہنچا تھا. تاہم محمد سعید کے قریبی رشتہ دار اورشناسا اِسے ایک بیہودہ الزام قرار دیا ہے اور وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ جلد حقیقت سامنے آجائیگی۔پولیس کے اہلکاروں اب کو خود اپنے کئے پر پستاوا ہو رہا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کا قاتل تا ہنوز آزاد ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قاتل زندہ ہے تو نیو میکسیکو کے مسلمانوں کی زندگی ابھی بھی خطرے میں منڈلارہی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل نئے حالات کے رونما ہونے کا فائدہ اٹھا کر اپنے لائحہ عمل کو یکسر تبدیل کرکے ایک پُر امن شخص بن سکتا ہے۔
پولیس نے جو شواہد پیش کئے ہیں اُن میں بیلسٹک کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ یکم اگست کے دِن محمد افضال حسین 27 سالہ اربن پلانر جس کا تعلق پاکستان سے تھا کے قتل میں اور پھر 26 جولائی کو آفتاب حسین اور گذشتہ جمعہ کے دِن نعیم حسین کے قتل میں جو اسلحہ کی گولیوں کے خول ملے ہیں وہ سب کے سب یکساں ہیں، اور اِسی طرح کی گولیوں کو محمد سعید کے گھر سے بھی برآمد کیا گیا ہے لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے، نیو میکسیکو کی پولیس نے محمد سعید کے گھریلو جھگڑوں کو بھی بہت اچھا لا ہے اور بلا وجہ اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ محمد سعید ایک جنگجو شخصیت کا حامل ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ میڈیا سے اچانک مسلمانوں کے قتل کی خبریں یکسر غائب ہو گئیں ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here