”پاکستان کی شمالی کوریا کی طرف پیش قدمی”

0
92

”پاکستان کی شمالی کوریا کی طرف پیش قدمی”

پاکستان نے دور جدید کی جانب سفر شروع کیاتو شفافیت ، انسانی حقوق کی عملداری، عوام کو جوابدہی ، عوام کی مرضی کو تسلیم کرنے جیسے کڑی آزمائشوں کو دیکھتے ہوئے اپنے سفر کا رُخ شمالی کوریا کی طرف موڑ دیا ہے جہاں کی عوام انٹرنیٹ کی بلا سے بالکل واقفیت نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی انہیں شمالی کوریا کے باہر کے ممالک کے حالات کی کچھ خبر ہے ، شمالی کوریا کے عوام بس اپنے ملک تک ہی محدود ہیں یعنی صرف شمالی کوریا کے صدر یا حکومت کے ہی گُن گاتے ہیں کیونکہ وہ عالمی حالات سے آگاہی نہیں رکھتے ہیں، اب پاکستان نے بھی اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو لاغر بنانے کی پالیسی پر عمل شروع کر دیا ہے، پہلے مرحلے میں تمام ایسے سرکاری اداروں کو جکڑا گیا ہے جہاں سے عوام کی حمایت میں فیصلے آ سکتے تھے اور یہ ادارہ کوئی اور نہیں عدلیہ ہے، سول کورٹ سے سپریم کورٹ تک کے تمام ججز حکومت نے مٹھی میں بند کر لیے ہیں ، عوامی مقبولیت کے لیڈرز کو کہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ، ایک پوری سیاسی جماعت کو سربراہ سمیت تاحیات جیل میں بند کر دیا گیا ہے ،اب کہیں سے انصاف نہیں ملے گا ، اب رہ گیا ،سوشل میڈیا تو حکومت نے 27کے قریب ایسے یو ٹیوب چینلز کو بند کر دیا ہے جہاں سے عوام کے حق میں آواز سنائی دے رہی تھی۔اگلے مرحلے میں انٹرنیٹ کنکشن کو محدود کرنے کی تیاریاں ہیں صرف حکومت ان ہی افراد کو انٹرنیٹ کنکشن جاری کرے گی جوکہ حکومت کے گن گائیں گے یا حکومت جن افراد کو انٹرنیٹ چلانے کے قابل سمجھے گی انہیں ہی کنکشن دیئے جائیں گے، تھری، فور جی سروسز ختم کر کے ون جی سروس شروع کی جائے گی، ملک سے تمام انٹرنیٹ موبائل فون ختم کر دیئے جائیں گے صرف امیر طبقہ ہی ان موبائل فون کو استعمال میں لا سکے گا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں نئے میدان جنگ کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا کے کچھ حصوں پر پابندیاں سخت کی گئی ہیں اور دوسروں کے لیے پہلے سے سخت پابندیاں عائد ہیں۔ ایک صحافی کے قتل اور دوسروں کی جبری گمشدگی سے لے کر سرد مہری، سوچے سمجھے ‘پریس ایڈوائس’ اور ڈیجیٹل آزادیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قانونی تبدیلیوں کی بھرمار پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ریاست سنسرشپ کی سطح میں اضافہ کر رہی ہے، لیکن ڈیجیٹل شعبے میں اظہار رائے کے لیے نئی جگہیں اُبھر رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ روایتی میڈیا پر اعتماد میں کمی کا فائدہ بڑے کاروباری اداروں، انتہائی دائیں بازو اور اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا ہے۔’سخت سزا’ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ایک ایسے ملک کی خوفناک تصویر پیش کی گئی ہے جہاں قانونی، ادارہ جاتی اور خفیہ دباؤ کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر آزادی صحافت میں 158 نمبر پر ہے جبکہ 2024 میں پاکستان انڈیکس پر 152 نمبر پر تھا۔پہلے سے ہی سرخ دائرے یعنی خطرے کی حد میں موجود پاکستان کی آزادی صحافت میں اس سال ایسا مزید کیا ہوا کہ وہ مزید چھ نمبر نیچے چلا گیا۔پاکستان میں جن صوبوں کا کنٹرول خاص طاقتوں کے ہاتھ میں ہے وہاں کوئی ڈھنگ کی خبر یا اصل معلومات سامنے نہیں آ رہیں جیسا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دیکھ لیں کہ کیسی صحافت ہو رہی ہے۔’اصل خبر یا معلومات کی رسائی کی بات کریں تو وہاں اصل مسائل پر معلومات تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی اور وہاں صحافی اپنی جان کو خطرات کے باعث اصل بات کر نہیں پاتے۔ گڈ طالبان بیڈ طالبان کی تفریق میں آپ کے لیے مسئلے ہوتے ہیں۔ آپ خبر کو آن ایئر نہیں کر سکتے کیونکہ فوری فون آ جاتا ہے کہ اس خبر کو ہٹا دیں،پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہے اور اس تناظر میں وہاں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہاں نہ صرف صحافت کرنا مشکل ہے بلکہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران صوبے میں سب سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستان میں اس وقت 100 ٹی وی چینلز اور 200 سے زیادہ ریڈیو سٹیشن ہیں جبکہ آن لائن میڈیا بھی خبروں کی ترسیل کے لیے سرگرم عمل ہے، میڈیا ریگولیٹرز پر حکومت کا براہ راست کنٹرول ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here