آج کا لکھنے والا عجیب تشویش میں ہے بات ان کی نہیں جو ملک میں رہتے ہیں بات ہماری ہے کہ لکھیں تو کیا لکھیں سوائے اس کے کہ کوئی اچھی خبر نہیں ملتی، ملک میں حکومت یا اُن کے چلانے والوں کی۔ ہر میدان میں نہ صرف افراتفری ہے بلکہ تباہی بڑھتی جارہی ہے اور اس نے زور پکڑا ہے ،عاصم منیر کے آنے کے بعد جو امریکہ کے ہاتھ میں ہیں ،امریکہ کیا چاہتا ہے ،آپ سب جانتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اطراف کا جائزہ لیں دو دن پہلے کا اندوہناک دل دہلا دینے والا منظر بتائیں کہ بلوچستان میں چند لوگوں کے گھیرائو میں دو میاں ،بیوی کو سر میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ کیا منظر ہوگا کہ طاقتور اپنی طاقت کے زور پر یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ مطلب عاصم منیر سے بھی بڑی طاقتیں ملک بھر میں ہیں جس کا بس چلتا ہے وہ مرضی کا کام کر بیٹھتا ہے۔ اس سے پہلے توہین رسالت ۖتوہین قرآن کے الزام میں146افراد (کرسچین) کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن وہ خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں، دونوں نے یعنی بانو اور احسان نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی جو لوگوں نے خود کی توہین جانا وہ بھی نام سے مسلمان تھے اور یہ دونوں بھی مسلمان تھے، پسند کی شادی پر ملک میں جگہ ایسے واقعات ملیں گے جو توہین رسالتۖ کے زمرے میں نہیں آتے اور پولیس کے سامنے ہوتا ہے حکومت خاموش رہتی ہے اور عاصم منیر جوPTIکے لوگوں کو قرآن پاک کی وہ آیتیں چیخ چیخ کر سناتے ہیں جو رسول ۖ کے دشمنوں کے لئے وحی کی صورت میں آئی تھیں افسوس کہ یہ شخص خود کو نہ صرف مسلمان کہتا ہے بلکہ حافظ قرآن بھی ہے۔ ایک دم اسلام کا دشمن اور اسلام کے لئے توہین، مولوی حضرات مزے لے رہے ہیں کون کس کا آدمی ہے یہ جاننا مشکل ہے مگر وہ جو کوئی بھی ہیں منافق ہے شرطیہ ہم کوئی خطیب یا مذہبی رہنما نہیں لیکن اسلام پڑھ کر اتنی سوچ آئی ہے کہ اسلام کیا کہتا ہے توہین رسالتۖ یا مرضی کی شادی کرنے پر صرف ایک واقعہ جو سب کو معلوم ہوگا وہ یہ کہ ایک آدمی کو مسجد کے احاطے میں پیشاب کرتے ہوئے پکڑ لیا اُسے رسولۖ کے سامنے لایا گیا تو رسول نے حکم دیا اسے چھوڑ دو اسے معلوم نہیں تھا کیا ان لوگوں نے جو توہین رسالتۖ کا نعرہ لگاتے ہیں اس طور سوچا ان کرسچین کی جان لینے میں جو توہین رسالتۖ کو نہ جانتے ہوں اور اُن کے پاس کیا ثبوت ہیں۔اس سے بھی دل ہلا دینے والا واقعہ2014کا ہے جب پڑوسیوں نے دو میاں بیوی کو توہین رسالت ۖکے جرم میں اینٹوں کی آگ اُبلنے والی بھٹی میں جھونک دیا تھااور اس سے بھی پہلے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کے ڈرائیور نے جو مذہبی جنونی تھا، گولی سے مار دیا تھا، اس بات پر کہ حکومت کو توہین رسالتۖ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اس جنونی کو پھانسی دے دی گئی اور کچھ جنونی لوگوں نے اس کی قبر پر پھول برسانا شروع کردیئے تھے۔
ہم کہاں جا رہے ہیں کچھ پتہ نہیں ،کیا کر رہے ہیں کوئی علم نہیں ،یہ ہی ہوتا ہے جب حکومتیں کرپشن میں برُی طرح بھیگی ہوئی ہوں اور ان پر بٹھایا گیا جنرل امریکہ کی نظر میں شاہ دولہا بن رہا ہو۔ شاباش لے رہا ہو، عوام کو خوفزدہ کرکے کہ وہ اپنے لیڈر کی قید کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج نہیں کرسکتے ،ہمار ایسا کہنا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے انہیں چھٹی دے دی ہے کہ یہ شیطان کے پرتو ہیں ،ہر کچھ کرسکتے ہیں اور وہ ساری مثالیں غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ ”دیر آئد درست آئد” اور اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں”یہ بھی کہ ”١٢سال بعد تو کوڑے کے دن بھی بدل جاتے ہیں” پھر یہ بھی کہ ”جیسی کرنی ویسی بھرنی” کے ساتھ ”جیسا کرو گے وہ واپس ملے گا” یہ بھی شامل کرلیں ”نیکی کر کنوئیں میں ڈال۔”
بابا بلھے شاہ ہمارا پسندیدہ ہے۔ جگہ جگہ آسان پنجابی میں کہہ گیا ہے۔
”بُلھّے شاہ دی من لے سنگیا
ملک دا راکھا ٹھگ نہ رکھیں
نشاندہی کر گیا ہے بلھے شاہ کہ ٹھگ کو ملک کا مالک نہ بنانا بُلھّے شاہ یہ بھی کہا ہے
” او بھُلیا حاصل کی کیتا؟”
جے توں رب ناکیتا راضی”
آپ بُلھّے شاہ کو پڑھ کر دیکھیں جو اللہ اور رسول کے سفیر تھے اور اگر رسول ۖکی تاریخ جو اسلام کی تاریخ ہے بھول چکے ہیں اور قرآن پڑھ کر نہیں جانتے کہ اللہ نے کیا کچھ کہا ہے تو پھر اچھا ہے کہ اس مذہب کے چکر سے نکلیں بقول عمران کے کہ حکومت اور اسکے چاہنے والے پڑھے لکھے نہیں اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں۔
آج بھی آپ کوٹ رادھا کشن پنجاب میں عیسائیوں کے قبرستان جا کردیکھیں۔دو بڑی قبروں پر بڑے بڑے کراس دیکھنے کو ملیں گے ان بے قصوروں کو مارنے والا اللہ نہیں ان کے پڑوسی تھے جو مسلمان کہتے ہیں آپ کو یوٹیوب پر جاکر دیکھیں اپنی کرتوت جو دنیا میں دوسرے ملک کے باشندے دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ پاکستان کے مسلمان باشندے دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ پاکستان کے مسلمان صرف نام کے ہیں اور طاقت کے نشے میں جو چاہیں کر سکتے ہیں خواہ وہ عاصم منیر اور اسکے دوسرے جنرلز ہوں یا چور حکومت کے لوگ جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں لیکن ان سب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ مرنا ہے ایک دن” بلوچستان میں اس سردار کے خلافFIRتو لکھی جا چکی ہے جس کے حکم پر بانو اور احسان کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا تھا لیکن کیا اس کو سزا ہوگی؟ ہمارا دعویٰ کہ نہیں۔
٭٭٭٭٭














