پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام طور پر پر قبضہ گروپوں رئیل سٹیٹ مالکان اور مقامی سرمایہ کاروں پر بھروسہ کرتی ہیں۔فنڈ ریزنگ کا کوئی منظم نظام نہیں۔اس سے قانون شکن عناصر آسانی کے ساتھ ہر حکومت کے اتحادی بن جاتے ہیں۔اصل کاروباری برادری کا بڑا حصہ لاتعلق رہتا ہے اور ہر حکومت سے رعائتوں کی اپیل کرتا رہتا ہے۔عمران خان نے ٹیکسٹائل کو مراعات دیں30برسوں کے درمیان ریکارڈ حجم میں برآمدات ہوئیں نئی پی ڈی ایم حکومت نے یہ مراعات ختم کر دیں۔ملک کی سیاست کے کردار بدل چکے تھے۔نئے حکمرانوں کی ترجیحات اور تھیں۔آغا حسن عابدی کو بڑھاپے میں قید ہوئی وہ دل کے مرض میں بعدازاں انتقال کر گئے۔ عارف مسعود نقوی پاکستانی کاروباری شخصیت ہیں۔انہوں نے دبئی میں ایک مالیاتی کمپنی قائم کی دی ابراج گروپ اینڈ امان فائونڈیشن۔ ابراج گروپ نے 2002 میں کام شروع کیا۔جلد ہی اس کے دفاتر افریقہ ایشیا لاطینی امریکہ مشرق وسطی ترکیہ اور وسط ایشیا تک پھیل گئے۔ 1972 میں آغا حسن عابدی نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل قائم کیا۔اس بینک کے پس پردہ پاکستان اور عالم اسلام کے وہ دماغ تھے جو عالمی مالیاتی نظام پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا اجارہ ختم کرنا چاہتے تھے ان دماغوں کا خیال تھا کہ پاکستان کے پاس ایسے مستعد لوگ موجود ہیں جو مسلم دنیا کو مغرب کی محتاجی سے نکال سکتے ہیں۔بی سی سی آئی کو لکسمبرگ میں رجسٹرڈ کرایا گیا۔کراچی اور لندن میں اس کے ہیڈ آفس فعال ہوئے۔ بی سی سی آئی کے مالک متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن النہیان تھے۔یہ آغا حسن عابدی ہی تھے جنہوں نے یو بی ایل کی بنیاد رکھی۔لکھنو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل آغا حسن عابدی بے پناہ صلاحیت کے مالک تھے انہوں نے 24سال کی عمر میں حبیب بنک میں ملازمت سے سفر کا آغاز کیا۔یو بی ایل قائم کیا تو اسے تجارت و صنعت سے وابستہ لوگوں کی پہلی ترجیح بنا دیا۔بینک کے سمندر پار کام کو فروغ دیا۔یہ وہ دن تھے جب پاکستانیوں کی بڑی تعداد عرب امارات اور یورپ جا رہی تھی۔بی سی سی آئی کا ابتدائی سرمایہ صرف 2.5ملین ڈالر تھا۔ایک عشرے میں یہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر بنک بن گیا۔اس بینک کی شاخیں دنیا کے 70ممالک تک پھیل گئیں۔کھاتہ داروں کی تعداد 13لاکھ تک چلی گئی۔جولائی 1991 میں عالمی نظام کے محافظوں نے بینک پر ریگولیٹری خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔کہا گیا کہ بینک منی لانڈرنگ کولمبیا ڈرگ گروپوں ابو ندال کی تنظیم اور سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا ہے۔ بینک پر پابندی لگ گئی۔عار ف نقوی نے ابتدائی ملازمتیں آرتھر اینڈرسن لندن اور کراچی میں امریکن ایکسپریس سے کیں۔نوے کے عشرے میں وہ سعودی عرب کی سب سے بڑی کمپنی Olayanگروپ سے وابستہ ہو گئے۔1999 میں اپنی جمع شدہ 50ہزار ڈالر کی رقم سے دبئی میں کپولا کمپنی قائم کی۔1999 میں انہوں نے انچ کیپ مڈل ایسٹ کمپنی 102ملین ڈالر میں خرید لی۔ عارف نقوی نے اس کمپنی میں اصلاحات کیں اور تھوڑے عرصے بعد اس کے مختلف شعبوں کو مجموعی طور پر 173ملین ڈالر میں فروخت کر دیا۔ فنانشل ٹائمز کی حالیہ سٹوری کے مطابق عارف نقوی نے 2012-13 میں تحریک انصاف کے لئے فنڈ ریزنگ کے لئے کرکٹ میچ کرائے۔عمران خان کہتے ہیں کہ یہ رقم پی ٹی آئی کے ڈکلیئرڈ اکائونٹ میں آئی۔عارف نقوی پر 2018 میں ریگولیٹری اداروں نے بے ضابطگی کے الزامات عائد کئے۔اپریل 2019 میں انہیں برطانوی حکام نے گرفتار کر لیا۔ ان پر امریکی محکمہ قانون نے فراڈ کا الزام عائد کیا۔کئی الزامات ہیں جن کے بارے میں قانونی کارروائی جاری ہے۔چند برس ہوئے پاکستان بھر میں ایک بنک کے ایچ ایس(خادم حسین شاہ) کی شاخیں تیزی سے کھلنے لگیں۔ بنک ترقی کر رہا تھا کہ عالمی اداروں نے الزام لگایا کہ یہ ایران سے مالیاتی لین دین کا چینل بن رہا ہے اس لئے بند کیا جائے۔ایسی اور مثالیں بھی ہوں گی۔ان اداروں پر جو الزامات لگے اور ان کی بانی شخصیات کی کردار کشی کے لئے بین الاقوامی میڈیا نے جو رپورٹس شائع کیں پاکستان میں ان کو مخصوص مفادات کے تحت خوب نمک مرچ لگا کر زیر بحث لایا جاتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ بھارت میں ایچ ڈی ایف سی بینک آئی ٹی سی لمیٹڈ ہندوستان یونی لیور وائپرو انفوسیز لمیٹڈ سٹیٹ بنک آف انڈیا کوٹک مہندرا بینک آئی سی آئی سی آئی بینک کیسے اربوں ڈالر کا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ان کی مالیاتی آزادی کا راز کیا ہے؟ بھارت کا امیر ترین شخص مکیش امبانی ہے۔اس کے پاس 90.7ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔دوسرے نمبر پر گوتم اڈانی ہے جو 90ارب ڈالر کا مالک ہے۔تیسرے نمبر پر سائیرس پونے والا ہے جو 24.3ارب ڈالر رکھتا ہے۔لکشمی متل کے پاس 17.9ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔میں نے جاننے کی کوشش کی کہ بھارت کی کاروباری اور سرمایہ کاری کمپنیاں قومی و بین الاقوامی سطح پر زیادہ کامیاب کیوں ہیں اور ان پر عالمی ریگولیٹر اعتراض کیوں نہیں لگاتے۔چند وجوہات سامنے آئی ہیں۔خاص طور پر مودی حکومت نے بین الاقوامی سطح کی کاروباری صلاحیت رکھنے والی بھارتی کمپنیوں کی دل کھول کر مدد کی۔نتیجہ یہ کہ ہم بین الاقوامی آرڈر پورے کرنے کے قابل نہیں رہے۔اب بنا سوچے سمجھے عارف نقوی کے پیچھے پڑ گئے کیونکہ وہ عمران کو فنڈز دیتا رہا اور عمران کے ہر مخالف کی نظر میں مجرم ہے کیا ہمیں کہیں پاکستان نظر آتا ہے۔ ان کی بعض ناجائز اور کسی حد تک خلاف قانون تجارتی سرگرمیں سے چشم پوشی کی ۔جواب میں یہ کمپنیاں بی جے پی کی مالی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں۔یوں سیاسی اور کاروباری استحکام کے لئے ایک توازن پیدا ہو گیا ہے۔
٭٭٭