شریف خاندان میں اچھی عادتیں بھی ہیں!!!

0
450
حیدر علی
حیدر علی

آخری شب کی تاریکی میں جب سڑکوں پر کتے بھونک رہے تھے پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کا قافلہ فراٹے بھر تا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا ، اُن کی منزل تھی چیف منسٹر ہاؤس لیکن اُنہیں کچھ تذبذب ، پس و پیش اور کشمکش کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا،وہ جب تخت لاہور پر قابض ہونے کے بعد چیف منسٹر ہاؤس پہنچے تو اُنہیں سخت حیرانگی ہوئی ، وہاںاُنہیں سابق وزیراعلی حمزہ شہباز فرش پر پونچھا لگاتے ہوے نظر آئے جو آگے بڑھ کر اُن سے مضافحہ کرتے ہوئے کہا کہ سر جی! پنجاب دی پُتر کی یہ عادت ہے کہ جب بھی وہ کسی گھر کو چھوڑتا ہے تو اُس کی صفائی کرکے جاتا ہے، پرویز الٰہی نے سرگوشی کرتے ہوے کہا کہ” شریفوں میں کچھ تو اچھی عادتیں ہیں لیکن جس شخص کی ایک ٹانگ لندن اور دوسری لاہور میں ہو تو اُسے پنجاب دی پُتر ہونے کا دعوی ٰکرنا زیب نہیں دیتا، اُنہوں نے حمزہ شہباز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب وہ یہاںسے جاسکتے ہیں، اُنہیں ٹھنڈے پانی سے شاور لینا ہے، حمزہ شہباز رخصت ہونے کیلئے تیار ہوگئے ، اور مضافحہ کیلئے آگے بڑھے اور کہا کہ سر جی ! یہاں کے بستروں میں کھٹمل بہت ہے ، خیال رکھیں گے ، کاٹ لینے سے بدن پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں’ ” اوئے میرے اﷲ، کھٹملوں ، مچھروں سے تو میں پریشان ہوں، اب تو میں دوائیاں چھڑکے بغیر یہاں نہیں سو سکتا، فی الحال بھائی کے گھر جاکر سونا پڑیگا”” میں بھی آپ کا بھائی ہوں، آپ ہمارے گھر بھی جاکر سو سکتے ہیں، صبح ناشتہ وغیرہ کھا کر ، اﷲ کا نام لے کر کام شروع کرسکتے ہیں، میں بھی یہی کیا کرتا تھا، ” حمزہ شہباز نے کہا ” نہیں جی ! یہ اخبار والے سرخی لگا دینگے کہ پرویز الٰہی حمزہ شہباز کے سسربن گئے ہیں، دونوں کے درمیان ایسی گٹھ جوڑ پیدا ہوگئی ہے جو نہ ہی طوفان سے ٹوٹ سکتی ہے، اور نہ سونامی سے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما آپس میں بیٹھتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں ، دعوتیں اُڑاتے ہیں، قہقہے مارتے ہیں ، اور پھر ایک دوسرے کے پیچھے یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ ارے وہ اُس نے تو قومی خزانے سے اربوں روپے چوری کیا ہے ، وہ تو چور ہے ، اُس سے بس ذرابچ کر ہی رہنا اوہ ذرا بچ کے” اِدھر معلوم ہوا ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے ججوں کو آسیب زدہ کرنے کیلئے برصغیر ہندو پاک کے تمام عاملوں ، جادوگروں اور ماہرین فلکیات کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشرا بی بی نے اپنے گھر کی چھت پر ایک شخص کی ممی نصب کردی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ججوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ تین سپریم کورٹ کے ججوں میں سے ایک کی نیت میں کچھ فتور آنے کا شبہ ہوا تھا جسے درست کرنے کیلئے ممی سے ایک بجلی کی لہر نکلی اور اُس جج کے گرد گرش کرنے لگی اور جج سہم کر پھر راہ راست پر آگیاتھا،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشرا بی بی نے گذشتہ منگل کی رات کو جو کھیر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور یو تھیوں کے مابین تقسیم کی تھی وہ بھی جادو ٹونا کے اثرات سے لبریز تھی اور جس کے ایک چمچہ کھانے سے ایک کارکن کے جسم میں سو جنات کی قوت پیدا ہو گئی تھی یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اتحادی جماعتوں کے کارکنوں پر بُری طرح غالب آگئے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بنگلہ دیش کے ایک عامل کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی.لیکن عامل نے پیشگی ایک لاکھ ڈالر کی رقم طلب کی تھی. عامل کا کہنا تھا کہ روزانہ پاکستانی روپے اور بنگلہ دیشی ٹاکا کی قیمت گرتی جارہی ہے ، اِسلئے وہ اپنی فیس صرف ڈالر میں وصول کرینگے۔ اُن کا عوی ہے کہ وہ اپنے کرتب کے ذریعہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی روحوں کو ہوا میں معلق کردینگے، جس کی وجہ کر وہ زمین پر مکمل طور پر ہوش و حواس سے محروم ہو جائینگے، وزیراعظم شہباز شریف نے جواب دیا تھا کہ وہ کسی ایسے کرتب کے حق میں نہیں ہیں جس سے ٹریفک کے حادثہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔یہ خوش آئند امر ہے کہ پاکستان کا ایک سیاسی بحران پُر امن طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے ، لیکن ابھی بھی بعض کُج فہم سیاستدان ملک میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پی ڈی ایم کے رہنما ببانگ دہل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت محض عارضی ہے اور وہاں کسی بھی لمحہ صدارتی راج نافذ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض رہنما ؤں کا یہ موقف ہے کہ شہباز شریف کی مرکزی حکومت بھی چند دنوں کی مہمان ہے ، اور اُسے بھی عدم اعتماد کی تحریک سے گھر بھیجا جاسکتا ہے۔ مزید برآں کرپشن کا الزام در الزام فارن فنڈنگ کا شور غوغا بھی اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا اپنے ملک کے سیاستدان اتنا زیادہ سوچ و فکراور عقل و دانش سے عاری ہیں کہ اُنہیں اپنے ملک کے حالات کا بھی ذرا برابر ادراک نہیں۔ پاکستان کی معیشت اپنی تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے ، روپے کی قیمت گر کر ایک ڈالر کے مقابلے میں 250 تک پہنچ گئی ہے، ملک کے ماہرین معیشت کیلئے یہ درد سری بنی ہوئی ہے کہ مستقبل قریب میں کس طرح قرض کی رقم کی ادائیگی کی جاسکے؟اِن مسائل سے پاکستان گھِر ا ہوا ہے اور اِس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ ملک ایک دفعہ پھر ہنگامہ آرائی کی نذر ہو جائے ، ملک کی فیکٹریاں کام کرنا چھوڑدیں ، ریل کا پہیہ جام ہوجائے ، اور غریب وطن فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہوجائیں، خدارا پاکستان کے سیاستدان کچھ سوچ سمجھ کر باتیں کیا کریں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here