شام پر اسرائیلی جارحیت!!!

0
92
شبیر گُل

دنیا جنگوں کی زد میں ھے ۔روس یوکرائن کی جنگ شدت اختیار کرچکی ھے۔خصوصا،اسرائیل کی فلسطین یمن، شام اور ایران پر یلغار جاری ھے۔ مسلم ممالک کی لیڈرشپ اور افواج خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ھوئے فلسطینوں کا بہتا لہو بے بسی سے دیکھ رہے ھیں۔گزشتہ ہفتے اسرائیل نے شام پر حملہ کردیا ھے۔ شام کی تاریخ اسلام میں بہت اہمیت ھے۔نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر زمین شام کو یہ زمین نبیوں کی جائے پیدائش ھے۔ سرزمین شام کی اہمیت اسلئے بھی زیادہ ھے کہ اسکی فضلیت قرآن میں بیان کی گئی ھے۔ نبیٔ کریم کی معراج بھی اسی سرزمین پر ھوئی۔ قبلہ اول چونکہ شام کی حدود میں تھی۔ اسلئے اسکی حیثیت بڑھ جاتی ھے۔ مبارک سر زمین ہے جس کیلئے رسول اللہ ۖ نیخاص طور پر برکت کی دعا فرمائی ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولۖ نے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول(ۖ)! ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما صحابہ نے پھر عرض کی: اے اللہ کے رسول(ۖ)! ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے؟ راوی کہتے ہیں کہ غالبا تیسری مرتبہ اللہ کے رسول ۖ نے (نجد میں برکت کی دعا کی درخواست پر) فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ھوگا۔ رسول اللہ ۖ نے مسلمانوں کی توجہ سرزمینِ شام کی فتح کی جانب اس وقت سے مبذول کروانا شروع کر دی تھی جب 8 ہجری میں غزوہ موتہ پیش آیا۔ اس کے بعد 9 ہجری میں غزوہ تبوک اور 11 ہجری میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک مہم تیار کی گئی، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک مخر رہی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 13 ہجری میں حج سے واپسی کے بعد شام کی جانب مہمات روانہ کرنا شروع کیں۔ بالآخر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شام فتح ہوا۔ اس فتح کے بعد بازنطینی (رومی) افواج وہاں سے نکل گئیں اور ان کے حامی بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ اس کے بعد شام اسلامی ریاست کا حصہ بن گیا اور اسلامی تاریخ میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ یہاں تک کہ اموی خلافت کے دوران، دمشق اسلامی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔ سرزمینِ شام نا صرف جغرافیائی طور پر اہمیت رکھتی ہے، بلکہ اس کے روحانی اور دینی اعتبار سے بھی بہت زیادہ فضائل ہیں ۔ شام ایسا متبرک مقام ھے جس کے بارے نبء کریم کی احادیث ھیں۔ جہاں چالیس انبیا نے ایک ہی مقام پر نماز ادا کی ۔ اصحاب کیف کی غار بھی اسی مقام پر واقع ھے۔ سرزمین شام شروع ہی سے جنگ وجدل کا مسکن رہی ھے۔گزشتہ چند سال میں شام میں چھ لاکھ سے زیادہ قمسلم قتل کئے جاچکے۔ ایکبار پھر شام کو خون میں نکلنے کی تیاری ھو چکی ھے۔ اس حکومت کے خاتمہ کے بعد اسلام پسند گروپ ہیت تحریر الشام کے جولانی نے ملک کا نظم ونسق سنھبالا ۔ پچاس سال کی اس مدت کے دوران روا رکھنے جانے والے جابرانہ طرز عمل، تشدد اور ظلم و زیادتیوں سے رفتہ رفتہ پردہ اٹھ رہا ہے۔جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے دروازے کھول کر ان ہزاروں لوگوں کو رہا کیا جا چکا ہے جن کا جرم محض انسانی اور جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔اسد دور میں غائب کیے گئے بہت سے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں اور ان کے عزیز و رشتے دار ان کی تلاش میں جیلیں اور حراستی مراکز کھنگالتے پھر رہے ہیں۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اسرائیل شام میں سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک نگران گروپ نے پیر کو بتایا کہ اسرائیل نے شام کے ساحلی علاقے طرطوس میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور دمشق میں فوجی ہیڈ کواٹر کو تباہ کیا۔ جس میں سینکڑوں ہلاکتیں ھوئی ھیں۔ایک طرف اسرائیل اور دوسری طرف دروز قبائل نے گولان کے علاقوں کو گھیر رکھا ھے۔ میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک تازہ اور مہلک لہر نے جہاں ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں ملک کے طول و عرض میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں شامی حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ حالیہ پرتشدد جھڑپوں کا آغاز 13 جولائی کو دروز اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کے اغوا کی خبر سامنے آنے کے بعد ہوا۔ یہ خبر سامنے آتے ہی جنوبی شام میں دروز ملیشیا اور سنی بدو جنگجو مدِمقابل آ گئے۔ دو دن بعد، یعنی 15 جولائی کو اسرائیل نے اس معاملے میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی افواج دروز آبادی کی حفاظت اور انھیں نشانہ بنانے والی شامی حکومت کی حامی افواج کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز جنوبی شام میں السویدا شہر کے باہر موجود بدو جنگجو دروز برادری کے ساتھ جنگ بندی کو قائم رکھے ہوئے ہیں تاہم وہ جھڑپوں کی بحالی کے امکان کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کرتے۔ یہ بدو جنگجو شہر سے پسپا ہو کر مضافاتی دیہات میں آ چکے ہیں۔ اس سے قبل تقریب ایک ہفتے تک دروز برادری، بدو جنگجو اور شامی حکومتی فوج کے درمیان جان لیوا تصادم تقریبا ایک ہفتے تک جاری رہا جس کے دوران اسرائیل کی جانب سے دروز کے حق میں فضائی بمباری بھی کی گئی۔ اتوار کو ایک برطانوی مانیٹرنگ گروپ نے کہا کہ خطے میں محتاط سکون برقرار ہے تاہم بعد میں ان کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ قبائلی جنگجووں نے دیہات پر حملہ کیا ہے۔ شام اس وقت ایک پیچیدہ اور نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ خانہ جنگی، علاقائی تنازعات، اور انسانی بحران اس ملک کے اہم پہلو ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی 2011 سے جاری تھی جس میں مختلف گروپوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی تھی ۔اس جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہو ہوئے۔اور ملک کا بڑا حصہ تباہ ہوا۔ علاقائی سطح پر، شام میں کئی ممالک اور گروہ ملوث رہی۔ پاکستان سے بھی ہزاروں شعیہ نوجوان اس جنگ میں حصہ لیتے رہے۔ ایران، روس، ترکی اور امریکہ شامل اس جنگ کا حصہ رہے۔ ان ممالک اور گروہوں کے اپنے مفادات تھے جس کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ رہی۔ شام میں انسانی بحران بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ابھی تک لاکھوں افراد بے گھر ہیں خوراک، پانی، اور طبی سہولیات کی شدید ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر، شام میں صورتحال بہت ہی مشکل اور نازک ہے۔ ملک کو امن اور استحکام کی بحالی کے لیے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جولانی حکومت کے آتے ہی ترکی، قطر، سعودی عرب نے مالی امداد کے علاوہ میڈیکل اور خوراک کی سپورٹ فراہم کی ۔ محسوس ھوتا تھا کہ شام میں امن ھوچکا ھے۔ لیکن دروز قبائل کی سیکورٹی فورسیز سے موجودہ جھڑپیں اور اسرائیل کے حملوں سے حالات سنگین ھوچکے ھیں۔ قبائل کا کہنا ھے کہ ھماری آخری سانسوں تک ھم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اسرائیل کا کہنا ھے کہ ھم دراز قبائل کا تخفظ کرینگے۔ دروز قبائل کی لیڈر شپ نے پہلے اسرائیل کی ساتھ ملکر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا اور اب اسرائیل سے الحاق کی باتیں چل رہی ھیں۔ یعنی شام ، لبنان اور عراق کے کچھ علاقے اسرائیل میں شامل کرنے کے منصوبہ پر عمل شروع ھوچکا ھے۔دروز قبائل کے اسرائیل سے اچھے تعلقات ھیں۔ انکی ملیشیا ٹرینڈ اور جدید اسلحہ کی مہارت رکھتی ھے۔ اسرائیل نے انہیں شامی علاقوں میں داخل کرنا شروع کیا ۔ جس سے شامی حکومت نے ان قبائل کی ملیشیا کو انکی حدود میں روکا دیا ۔دروز قبائل کے حملوں کے جواب میں شامی لوگ ستر ہزار کی تعداد میں السویدہ میں داخل ھوئے جن جھڑپیں شروع ھوئیں ۔ اسرائیل اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ھے۔ اسرائیل کا کہنا ھے کہ دروز قبائل شام لبنان اور اسرائیل میں دروز قبائل رہتے ھیں۔ جن کی تعداد تقریبا دس لاکھ ھے۔ احمد شرح جولانی کا کہنا ھے کہ دروز قبائل کی خفاظت ھماری ذمہ داری ھے۔ اور اسرائیل کو شام کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اسرائیل گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ھے۔ ترکی ،ایران اور سعودی عرب بھی اس جنگ میں کودنے کو تیار ھیں۔ جس سے حالات مزید بگڑ سکتے ھیں۔ اسرائیلی بربرئیت غزہ میں جاری ھے۔ عراق، شام ،لبنان اور خطے کے دوسرے ممالک میں اسرائیلی جارحیت بھی جاری ھے اس عالمی غنڈے کو کوئی روکنے والا نہیں ۔ مسلم ممالک کی بزدلی اور کمزوری نے خطے میں اسرائیل کو منہ زور درندہ بنا دیا ھے۔ یورپ اور امریکہ اس عالمی غنڈے کی پشت پر ہیں۔ مسلم ممالک کو اس درندے کو روکنے کے لئے موثر سدباب کرنا ھوگا۔وگرنہ مزید ذلت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here