دسمبر کا مہینہ کئی لخاظ سے منفردہے جس میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی جس کی بدولت مملکت خدادا نصیب ہوا۔ ۔ اسی مہینے ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہوا۔ وطن عزیز دو لخت ہوااور اسی مہینہ پاکستان کی بڑی اقلیت کرسچن کمیونٹی اپنا مذہبی تہوار کرسمس مناتی ہے۔ آج اس بچے گچے قائد کے پاکستان کا حشر نالائق حکمرانوں، جرنیلوں ،بدکردار سیاستدانوں اور بدعنوان ججز نے کردیا ہے۔ ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے، کرپٹ مافیا براجمان ہے۔ کسی کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ بانی پاکستان کے لئے فاتحہ خوانی یا دعائیہ تقریب کا اہتمام کرسکے۔ سب ملکر اسے نوچ رہے ہیں اور بانیان پاکستان کی روح کو تڑپا رہے ہیں۔ آرمی چیف ہو یا چیف جسٹس، سربراہ مملکت ہو یا وزیراعظم ، قومی اسمبلی، سینٹ سب جھوٹوں اور مکاروں کی آماجگاہیں ہیں۔ قرآن کی تلاوت کے بعد جھوٹ سے اسمبلی اور سینٹ کی کاروائی کا آغاز۔ انصاف کے ترازو کے نیچے غیر منصفانہ فیصلے۔ آرمی اسٹبلشمنٹ روزانہ کہتی ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان سب کا ملک سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ عوام سے ۔ ان کا تعلق صرف مال لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے سے ہے۔ نہ ان کے پیٹ بھرتے ہیں اور نہ طمع ختم ہوتاہے۔لٹیروں کی ریاست ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ادارے خسارے میں۔ اداروں کے سربراہ منافع میں۔ سیاستدان نظارے میں اور عوام گزارے میں ۔ ملک پر مردود، مکار اورحرامخور مسلط ہیں۔ ظالم، درندے اور مکروہ چہرے ملک کو نوچ رہے ہیں۔ بیسیوں نوجوان روزگار کی غرض سے یونان میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ کبھی اسمبلی کے فلور ہر کسی نے پوچھاہے کہ یہ۔ چے ملک چھوڑ کر یورپ اور امریکہ کیوں جارہے ہیں۔؟ کبھی کسی نے پوچھا کہ کاٹن انڈسٹری کی تباہی کا کون ذمہ دار ہے۔ اس سے کتنے خاندان بیروزگار ہوئے۔ ؟ کبھی کسی نے پوچھاہے کہ سسٹم کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کون ہے۔ انہیں قانون کے کٹہرے میں کون لائے گا۔ ان مجرموں سے کون پوچھے گا۔ ؟حیوانی معاشرہ ہے جہاں قاتل مقتول فیملی کو خرید لیتا ہے۔ جزا اور سزا کا طوق کمزور کی گردن ڈالا جاتا ہے۔ ظالم، کرپٹ اور بددیانت دندناتے پھر رہے ہیں۔ کوئی عدالت اور قانون طاقتور کو نہ پکڑ سکتے ہیں اور نہ سزا دے سکتے ہیں۔ انصاف کے ادارے بد دیانت ہیں۔ ان درندوں کی گردن ماپنے کی ضرورت ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ارب پتی درندوں نے نوجوانوں کو مایوس کیا ہے۔ جہاں تعلیم انتہائی مہنگی، صحت کا نظام برباد، صفائی ستھرائی ناقص۔کرپٹ، بدکردار اور بے ضمیر حکمران ہیں۔جنہوں نے معاشرہ میں بددیانتی کو فروغ دیا ہے۔ ہر ادارہ ملک کو کھا رہا ہے۔ بد نصیب معاشرہ میں ہر طرف حرام ہی حرام۔چھوٹا ہو یا بڑا ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ خنزیر النسل شخص بیٹھا ہے۔ جو فرعونیت کا لبادہ اوڑ رکھا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری، اور عمران خان کی برسی منانے والوں نے بانی پاکستان کی سالگرہ منانے کی توفیق ھوئی۔کرپشن ،کرپشن، کرپشن، جہاں ہر آدمی کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہو وہاں معیشت کا بیٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ دنیا کی نمبر ون ایجنسی آئی ایس آئی واقع نمبر ون ہے۔ جو آج تک دہشتگردوں کو پکڑ نہیں سکتی۔یہ دنیا کی پہلی نمبر ون ایجنسی ہے ۔اپنے لوگوں کے گھروں کی ویڈیوز ،لوگوں کے بیڈ رومز کی ویڈیوز بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ھمارے ایک دوست نے ازراہ تفنن کہا کہ جس کسی کو قبض ہو ھماری آئی ایس آئی اسے دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آئی ایس آئی نے ٹرمپ کی بیڈ روم اور باتھ روم تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کاایک وزیر بیان بازی کر رہاہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہناہے کہ دہشت گردی پر اکسانے والوں اور مالی معاونت کرنے والوں کا محاسبہ کرینگے۔ میری آرمی چیف سے گزارش ہے کہ پہلے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریں۔ کیا آپ آئی ایس آئی کے ادارے کو بند کرینگے جو دہشتگردوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ نوجوانوں کو دہشت گردی پر اکساتی ہے۔ جو ملک کیے انتحابی عمل پر ڈاکہ ڈالتی ہے۔ لوگوں کو ملک اور نظام سے باغی کرتی ہے۔ اسی فوجی اسٹبلشمنٹ نے معاشی دہشتگردوں کو ملک پر مسلط کیا ہے۔ جنہوں نے ملک کی چولیں ہلا دی ھیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں نوجوانوں کو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور بغاوت پر مجبور کیا ہے۔ کیا آرمی چیف صاحب واقعی آپ خلف کی پاسداری چاہتے ہیں تو آگے بڑھئیے ۔ اس قرآن کی لاج رکھئیے جو آپکے سینے میں ہے۔ ان آیات کا بھرم رکھئیے جو آپ آئے روز تقاریر میں پڑھتے ہیں۔ قوم ضیا الحق سے بھی آیات قرآنی سنتی رہی ہے۔ اور قوم جانتی ہے کہ سیاستدان ھوں یا فوجی جرنیل ، بیوروکریٹس ھوں یا ججز ۔ یہ سب جھوٹے مکار اور دغا باز لوگ ھیں۔ جو ملک و قوم سے مذاق کرتے ہیں ۔ قوم بھی یہی deserves کرتی ہے۔ کیونکہ قوم کی ایک آنکھ بند اور دوسری کھلی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ چوروں کو کریں اور ان سے خیر کی توقع بھی کریں۔ آجکل آرمی چیف نے تمام سیاسی معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف وہ بندرہے جس کے ہاتھ میں ماچس آگئی ہے۔ دشمن کو ہم سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے جب ہم اپنی بنیادیں خود ہی کمزور کرنے پرتلے ہوں۔ اپنے سر میں خود ہی خاک ڈالتے ہوں۔ امریکی جج کے مطابق پاکستانی مفاد کے لئے ماں بھی بیچ دیتا ہے۔ جج صاحب نے ان پاکستانیوں کے لیے کہاہے جو بڑے بڑے عہدوں پر تشریف فرما ہیں۔ جن میں جج، جرنیل اور سیاستدان شامل ہیں جو ملکی سلامتی کے خلاف فیصلے کرتے ہیں۔آئین کو بلڈوز کرتے ہیں ۔ معیشت کو ملیا میٹ کرتے ہیں۔ ملک کو لوٹتے ہیں۔ قرض لیکر ملک کو گروی رکھتے ہیں۔ اپنے ہی عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس ملک میں امیر امیر تر ہوا۔ ہے ۔ غریب سطح غربت سے نیچے چلا گیا ہے۔ فراڈی اور فراری بار بار مسلط کئے جاتے ہیں ۔ یہ فرسودہ سسٹم اور نظام ننگا ھوچکاہے۔ اس نظام کے کپڑے اتر چکے ہیں۔مگر بے شرموں کو نہ کوئی حیاہے اور نہ کوئی غیرت ۔پرانی روش، پرانے طریقے وہی وارداتیں۔عوام نے انکے کالے چہرے تو پڑھ لیے ہیں۔ مگر آج بھی اسی بدبودار نظام کی اسیرہے جہاں ارب پتی ،کرپٹ سرمایہ دار ،ظالم طاقتور اور حیوانوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ایماندار، دیانتدار، محب وطن کو منتخب نہیں کیا جاتا ۔ یعنی جتنا نظام کرپٹ ہے اس سے کہیں زیادہ عوام کرپٹ ہے۔ جو چوروں اور ملک فروش عناصر کو ووٹ دیتی ہے۔ سوکالڈ عوامی نمائندے کبھی پیپلز پارٹی کبھی ن لیگ اور اب پی ٹی آئی میں گھس گئے ہیں ۔ وہی چہرے ،وہی بدمعاش اور وہی لٹیرے پارٹی اور جھنڈا بدل بدل کر عوام کو بیووقوف بناتے ہیں ۔ کبھی ان چوروں کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیکورٹی رسک کہا جاتا ہے۔ اور کبھی انکی رہائی کے لئے امریکی دبائو۔ آج ایک بار پھر امریکی دبا آرہا ہے۔ چونکہ ہم غلام قوم ہیں غلاموں کی اوقات ہی کیا کہ اپنے آقا کے سامنے سر اٹھا سکیں۔ جب امداد کے لیے امریکہ کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں تو انکی آواز پر دم ہلانا اور اوقات میں رہنا فطرت ہے۔ قارئین! ہم چونکہ بیگرز ہیں ۔گداگر اور بیگرز کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتے۔ سیاسی قائدین اکثر نئے نئے فارمولے متعارف کراتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں کبھی چارٹر آف ڈیموکریسی، کبھی چارٹر آف اکانومی ایگریمنٹ سائن ہوتا ہے۔ لیکن نہ سیاست آگے بڑھتی ہے۔ نہ معیشت کو استحکام۔ ڈنگ ٹپائو پالیسی گزشتہ چالیس سال سے چل رہی ہے۔ ہمیشہ کمیٹیاں بنتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔چونکہ انکے ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں۔جن کا ملک کی سلامتی، معیشت کی بہتری، ملکی استحکام کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔اسی لئے سیاسی تنائو برقرار رہتا ہے۔ اس کا حل روایتی سیاستدانوں سے چھٹکارے کے علاوہ کوئی نہیں۔ملک کا حل اور سلامتی صرف جماعت اسلامی ہے۔
٭٭٭