کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا!!!

0
757
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم پنجاب کا نوحہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلوچستان کے رسم و روایات اور قبائلی کلچر کی نشاندہی کو پنجاب سے نفرت کیساتھ بھارت کی پاکستان دشمنی کا سبب قرار دیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ قبائلی نظام اور بلوچ عوام کی غلامی کی حد تک محرومی و کمپرسی کی بنیاد خلاف دین وا نصاف وہ رسوم و رواج ہیں جو صدیوں سے بلوچ معاشرے میں رائج ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے 78 برس کے بعد بھی قائلی سرداروں کی مرضی و اختیار سے بدعتوں کی صورت میں موجود ہیں اور جرگوں کے ذریعے عمل پذیر ہیں۔ کاروکاری کی انسانیت کش بدعت بلوچ رسم اور عملداری کی جس بھیانک واردات کا آج کل جو چرچا برپا ہے وہ انسانیت، انصاف کے کسی اصول اور قاعدے کی میزان پر پورا نہیں اُترتا۔ کاروکاری کا یہ واقعہ اطلاعات کے مطابق عید سے قبل ہوا بانو کے قبیلے کے سردار کے فیصلے پر جرگے نے گولیاں مار کر بانو کو موت کے گھاٹ اُتارا، بعد ازاں احسان اللہ کو بھی ختم کر دیا گیا۔ واقعے اور مابعد اثرات و اقدامات کی تفصیل سے میڈیا کے توسط سے بچہ بچہ واقف ہے اور ہمارا مطمع نظریہ یہ ہے کہ غیرت کے نام پر یہ ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں، ہماری اطلاعات کے مطابق 2012ء سے غیرت کے نام پر بلوچستان میں 500 سے زائد لڑکوں، لڑکیوں کو مارا جا چکا ہے ملک بھر میں 1200 کے قریب مرد و زن اس غیر انسانی رسم و ریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرگے، پنچایت، غیرت و کچہری کے نام پر عوام کے استحصال اور قتال کی آزادی کے نفرت انگیز سلسلوں پر قدغن لگانے کیلئے ملک کی سیاسی اشرافیہ، ریاست و حکومت اور آئینی و منصفی اداروں کے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہماری سیاست کا محور و مرکز ہی سات دہائیوں کے بعد بھی سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں کے گرد ہی گھوم رہا ہے اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ انصاف و انسانیت کیخلاف ان منافرانہ و طاقتور عناصر پر ہاتھ ڈال کر ان کا خاتمہ کر سکے یا ان رسوم و رواج کیخلاف آئین کا راستہ اپنا سکے۔ مفادات و اغراض کی غلام سیاسی اشرافیہ ایوانوں میں 26 ویں، 27 ویں ترامیم اور من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے محاورے پر اکٹھی تو ہو سکتی ہے لیکن انسانیت و انصاف دشمن معاملات کے خلاف متحد ہونا اس کے بس سے بعید ہی نظر آتا ہے۔ البتہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے اسے گینگسٹرز اور مافیا سے رابطوں میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ تازہ ترین مثال مولانا فضل الرحمن کی راولپنڈی کے قبضہ گروپ کے تاجی کھوکھر کی رہائش گاہ آمد، اس کے بیٹے کی جے یو آئی میں شمولیت اور مولانا کی میڈیا کانفرنس ہے، گویا سیاسی جماعتوں میں سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں و کاروباری عناصر کیساتھ اب گینگسٹر اور قبضہ مافیا بھی ہوگا اور ایوانوں کا حصہ بھی ہوگا۔ کہنے کو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آج بھی وفاقی و صوبائی ایوانوں میں ایسے افراد کی کمی نہیں لیکن ان کے چہروں پر پروفیشن کے نقاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ سے صوبائی سطح کے ایوانوں تک ملک اور عوام کے مفادکو نہیں ذاتی و مفاداتی مقاصد اور اپنی سبقت کو اولین ترجیح قرار دیا جاتا ہے۔
ماضی میں جانے سے گریز کرتے ہوئے حالیہ سیاسی صورتحال پر ہی نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ موجودہ ہائبرڈ نظام کے سبب مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کئے جانے کے نتیجے میں پشاور سے سینیٹ کی نشستوں کیلئے جو تماشہ لگا اور جس طرح بندر بانٹ ہوئی اس کی مثال نہ پاکستان کے انتخابی منظر نامے میں ملتی ہے نہ کسی دوسرے جمہوری معاشرے میں ،اسٹیبلشمنٹ کے متعینہ منصوبے کے تحت ایک طرف ن لیگ پی پی پی اور جے یو آئی فیضیاب ہوئے پی ٹی آئی 6 سیٹیں لے کر بھی آزاد کی کیٹیگری میں ہی رہی البتہ سینیٹ میں حکومتی اتحاد اکثریت بن گیا۔ اس تمام معاملے کو گنڈا پور کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے لیکن کیا درحقیقت یہ بھی پی ٹی آئی کے حق میں بھی کوئی پیش رفت ہے یا اس کو اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے تحت گنڈا پور اور بیرسٹر سیف کا عملدر آمد کہا جائیگا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here