”پاکستان کو دشمنوں کی ضرورت نہیں ‘

0
5

”پاکستان کو دشمنوں
کی ضرورت نہیں ”

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کو کسی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں موجود کرپٹ عناصر چاہے وہ سیاستدان ہوں یا فوجی حضرات ،سب ہی اس کو ڈبونے میں زمین آسمان ایک کررہے ہیں ، 65، 70کی دہائی جس ملک کی ترقی کی مثال بھارت میں دی جا رہی تھی آج اسی ملک میں بھارت کی ترقی کے چرچے ہیں جوکہ سیاسی ، معاشی ، ثقافتی ، سائنسی میدان میں پاکستان سے کوسوں میل آگے نکل چکا ہے جبکہ ہمارے بڑے آج بھی عوام کا پیسہ بٹورنے میں مصروف ہیں ۔پاکستان کے متعلق عام تاثر یہی تھا کہ ملک کے کرپٹ سیاستدان اس کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں جبکہ آج یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اس ملک کی سب سے وفادار فوج کے جنرل بھی دودو ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں جوریٹائر ہونے کے بعد کروڑوں روپے قانونی طریقے سے پاکستان سے دوسرے ممالک میں منتقل کرتے ہیں ، ہندوستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کی ضرورت بنتے جارہے ہیں، بڑی تنخواہوں پر نوکریاں حاصل کر رہے ہیں۔ گوگل جیسے بین الاقوامی بڑے ادارے ہندوستانیوں کو بھاری بھرکم تنخواہوں پر نوکری دے رہے ہیں اور ہم ہاتھ باندھ کر درخواست کررہے ہیں کہ سر کوئی بھی کام دے دیں کرلوں گا، کچھ بھی تنخواہ مل جائے چلے گی۔ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمیں ہندوستان سے صرف کرکٹ کے میدان میں ہی مقابلہ نہیں کرنا بلکہ معیشت کا وسیع میدان بھی ہمارا منتظر ہے۔انڈیا کی معاشی طاقت کی بڑھوتری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ایک ایسے دوست ملک نے، جس سے ہماری ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی ہے، وہ بھی اس سے متاثر ہو کر یا یوں کہہ لیجئے اس کی ناراضی کے خوف سے اپنے ملک میں ہونے والی کانفرنس میں ہمیں مدعو کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔عالمی سطح پر بھی پاکستان کی بھارت کے مقابلے میں اہمیت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے ، تقریبا سن دو ہزار تک مغربی ممالک کی پالیسی یہی تھی کہ خطے میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ دونوں ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، ایک دوسرے کے حریف بھی تھے اور پھر دونوں کے مسائل بھی یکساں تھے۔ جرمنی جیسے ممالک نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تقریبا ایک جیسے امدادی پیکج ہی دونوں ملکوں کو دیے تھے۔ ہمیشہ خیال رکھا گیا کہ بھارت کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہو، پاکستان اس سے ناراض نہ ہو یا پھر معاہدے طے کرنے کے عمل میں کسی حد تک پاکستان کو شامل رکھا گیالیکن جب چین کا معاملہ آیا تو مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اگر چین کا مقابلہ کرنا ہے، تو پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ پاکستان چین کا بھی دوست تھا اور ہے جبکہ اس وقت افغانستان کی جنگ اور دہشت گردی کا بیانیہ دونوں ہی عروج پر تھے۔ان دونوں معاملات نے مغربی ممالک کے اس بیانیے کی راہ ہموار کی کہ بھارت کو پاکستان سے الگ کرکے دیکھنا چاہئے لیکن ان تمام چیزوں پر جو مہر ثابت ہوئی، وہ امریکی بھارتی جوہری معاہدہ تھا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ عرصہ قبل امریکہ میں کہا تھا کہ پاکستان سے اب کوئی مقابلہ نہیں، اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیں، وہ خود مر جائے گا۔ اس بیان پر پاکستان میں شدید احتجاج ہوا تھا لیکن یہ بیان بدلتی ہوئی بھارتی پالیسی کا غماز ہے۔مغربی ممالک کے بعد اب بھارت میں بھی یہ ادراک پیدا ہو چکا ہے کہ مقابلہ چین سے ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس شعور میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھارت میں بین الاقوامی سرمایہ کاری آ رہی ہے، دنیا کی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں وہاں قدم رکھ رہی ہیں، بھارت چاند پر پہنچ چکا ہے اور پاکستان میں بیٹھے لوگ بھی بھارت کو اس بات پر مبارک دے رہے ہیںیعنی عوامی سطح پر بھی قبولیت آئی ہے کہ بھارت آگے نکل گیا ہے جس بھارت کی جی ڈی پی سن دو ہزار میں تقریبا 470 بلین ڈالر تھی، سن دو ہزار تیئیس میں وہی جی ڈی پی 3.74 ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں آج بھی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے ہے ، ان دونوں کی لڑائی میں عوام بری طرح پس رہے ہیں ، فوج کو صرف اپنی افواج کی فکر ہے جبکہ پاکستانی عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ، اسی سوچ کی وجہ سے پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ، بھارت سمیت کسی بھی دشمن کو پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے کسی میزائل یا ایٹم بم کی ضرورت نہیں بلکہ فوج کے کرپٹ ترین فوجیوں کی ضرورت ہے جوکہ ملکی سرمایہ بیرون ممالک میں لٹا رہے ہیں جبکہ عوام بے یارو مددگار ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here