نیویارک(پاکستان نیوز) عالمی معیشت اس وقت بحرانوں کی زد میں ہے، معاشی سست روزی کے باعث عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر کساد بازاری دستک دیتی دکھائی دے رہی ہے، عالمی سطح پر کوئی بھی چھوٹی سے عافت دنیا کو خوفناک مہنگائی کے دور کا سامنا کروا سکتی ہے، اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتوں کو تجارتی، مالیاتی اہداف کے حصول کیلئے مناسب حکمت عملی اپنانا ہوگی، اسی تناظر میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی ڈائریکٹر جنرل نگوزی اوکونجو آئیویلا نے خبردار کیا ہے کہ پے در پے بحرانوں کے باعث دنیا تیزی سے عالمی کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے، عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ٹی او کے سالانہ پبلک فورم کے موقع پر خطاب میں نگوزی اوکونجو آئیویلا کا کہناہے کہ دنیا کو غیر یقینی صورت حال اور متعدد بحرانوں کا سامنا ہے، جن میں روس’یوکرین تنازع، صحت عامہ، اقتصادی، موسمیاتی، جغرافیائی اور سیاسی بحران شامل ہیں،ڈائریکٹر جنرل نگوزی اوکونجو آئیویلا نے کہا کہ میرے خیال میں ہم عالمی کساد بازاری کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم یہ وقت سوچنے کا ہے کہ ہم اس سے باہر کیسے نکلیں گے، ہمیں پیداوار بحال کرنے اور بڑھانے کی ضرورت ہے رپورٹ کے مطابق 26 ستمبر کو اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے بھی کہا تھا کہ عالمی معاشی نمو کی رفتار میں توقع سے زیادہ کمی ہو سکتی ہے، روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور مہنگائی بحران کے سبب اہم معیشتوں کے کساد بازاری کا شکار ہونے کے خطرات ہیں، او ای سی ڈی نے بتایا تھا کہ رواں برس کے لیے عالمی معاشی شرح نمو 3 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو 2023 میں کم ہو کر 2.2 فیصد ہو سکتی ہے او ای سی ڈی کے سیکرٹری جنرل میتھیاس کورمن نے بیان میں بتایا تھا کہ روس کے یوکرین پر بلااشتعال حملے کی وجہ سے عالمی معیشت کی رفتار سست ہوگئی ہے، متعدد معیشتوں میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ رک گیا ہے، اور معاشی اشاریے مزید سست روی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔او ای سی ڈی کے مطابق رواں برس یورو زون کی معاشی شرح نمو 3.1 فیصد سے کم ہو کر اگلے سال صرف 0.3 فیصد رہنے کا خدشہ ہے میتھیاس کورمن نے نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ اہم معیشتوں میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے زری پالیسی کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، اور حکومتوں کو ٹارگٹڈ مالیاتی پیکیج دینا چاہیے تاکہ صارفین اور کاروبار کو اعتماد مل سکے، اسی طرح برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فرانسیسی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) نے بھی ملتے جلتے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ سال عالمی معیشت کو اس سے بڑھ کر ضرب لگ سکتی ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے، جہاں سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے، جس کا خدشہ گزشتہ سال ظاہر کیا گیا تھا۔ او ای سی ڈی کی رپورٹ جس کا عنوان جنگ کی قیمت کی ادائیگی ہے میں بتایا گیا ہے کہ اس تنازع نے عالمی سطح پر تیزی سے افراط زر میں اضافہ کردیا ہے، کرونا کی عالمی وبا کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے باعث اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ ایندھن کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں، یوکرین اور روس دونوں ہی ماضی میں ایندھن کے علاوہ خوراک کے سامان کی پیداوار کے لیے اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ، تاہم جنگ کی وجہ سے ان کی پیداوار متاثر ہوئی ہے جس سے دنیا کے کئی حصوں میں خوراک کے بحران نے سر اٹھایا ہے ماہرین پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر بحرانوں کو نہ روکا گیا تو صورت حال کساد بازاری کی طرف چلی جائے گی جبکہ اب عالمی ادارہ برائے تجارت نے اس خطرے کا واضح الفاظ میں اظہار کر دیا ہے۔دنیا بھر میں ممکنہ کساد بازاری کے پیش نظر ایندھن کی طلب میں کمی کے خدشات کے باعث تیل کی قیمتوں میں مسلسل دوسرے روز بھی کمی آگئی۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے اہم مرکزی بینکوں کی طرف سے شرح سود اور امریکی ڈالر میں اضافے کی وجہ سے دیگر ممالک کے صارفین کی خام تیل خریدنے کی صلاحیت محدود ہونے سے عالمی سطح پر کساد بازاری کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں متاثر ہوئی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ نومبر کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر 1.35 ڈالر یا 1.57 فیصد کم ہوکر 84.80 ڈالر فی بیرل ہوگیا ہے، جس سے معاہدے میں 84.51 ڈالر تک کمی ہوئی ہے جو 14 جنوری کے بعد سب سے کم ترین سطح ہے۔ امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں خام تیل کی قیمت نومبر میں ترسیل کے لیے 1.15 ڈالر یا 1.46 فیصد کم ہو کر 77.59 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے اور ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں قیمت کم ہو کر 77.21 ڈالر پر آگئی ہے جو 6 جنوری کے بعد کم ترین سطح ہے،رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد دونوں معاہدوں میں 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، ڈالر انڈیکس جو بڑی کرنسیوں کے مقابلے ڈالر کی پیمائش کرتا ہے وہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔امریکی ڈالر مضبوط ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت پر ملنے والے تیل کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ تیل کی خریداری کے لیے دیگر کرنسیوں کا استعمال کرنے والے خریداروں کو خام تیل خریدنے کے لیے زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، امریکا خام تیل استعمال کرنے والے سب سے بڑا ملک ہے تاہم امریکا سمیت دیگر ممالک کے مرکزی بینکوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ معیشت میں تنزلی سست روی کا باعث بن سکتی ہے۔