پاکستان ایران تجارتی و تزویراتی امکانات!!!

0
52

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر مسعود پیزشکیان کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک نہ صرف داخلی چیلنجز سے نبرد آزما ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نئی صف بندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایرانی صدر کی جانب سے پاک ایران تجارت کو سالانہ 10 ارب ڈالر تک لے جانے کی خواہش نہ صرف ایک معاشی ہدف ہے بلکہ ایک وژن بھی ہے جو خطے کی سمت متعین کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کا حجم اندازا 2 ارب ڈالر سالانہ ہے، جس میں بیشتر تجارت غیر رسمی یا بارٹر نظام کے تحت ہوتی ہے۔ پاکستان ایران سے بنیادی طور پر تیل، ایل پی جی، پھل، خشک میوہ جات، اور کیمیکل مصنوعات درآمد کرتا ہے، جبکہ ایران پاکستان سے چاول، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، اور کچھ زرعی مصنوعات خریدتا ہے۔ اس محدود دائرہ کار میں وسعت کی گنجائش بہت زیادہ ہے، خاص طور پر جب دونوں ممالک توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت، صحت، اور ہنر مند افرادی قوت کے میدانوں میں شراکت داری بڑھا سکتے ہیں۔ صدر پیزشکیان کے دورے میں جن موضوعات پر خاص توجہ دی گئی ان میں سرحدی مشترکہ مارکیٹیں بھی شامل تھیں۔ مکران اور بلوچستان کی سرحدوں پر واقع مارکیٹیں مقامی معیشت کو سہارا دے سکتی ہیں۔ ان مارکیٹوں کے ذریعے سمگلنگ کو قانونی تجارت میں بدلا جا سکتا ہے، جس سے ریاستی ریونیو بڑھے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سرحدی تجارت دونوں ممالک کے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ایران، پاکستان کے لیے توانائی کے شعبے میں ایک قدرتی شراکت دار ہے۔ ایران پہلے ہی بلوچستان کے علاقوں کو بجلی فراہم کر رہا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہے، لیکن حالیہ عالمی سیاسی حالات اور توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران نے اس کی اہمیت کو از سر نو اجاگر کیا ہے۔ اگر امریکہ کی پابندیاں نرم ہوں یا کوئی نیا میکنزم وضع کیا جائے تو یہ منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔نئی صورتحال میں اس امر کا امکان موجود ہے کہ گیس پائپ لائن کی تنصیب پر توجہ دی جائے۔ پاک ایران دو طرفہ تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرتے وقت محتاط سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سعودی عرب، امریکہ اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی اہم ہیں۔ تاہم، خطے میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال اور چین کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے ایران کے ساتھ قربت کو ایک تزویراتی اہمیت دی ہے۔ ایران کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات، پاکستان کو خطے میں توازن قائم رکھنے کی بہتر پوزیشن میں لا سکتے ہیں۔تجارت کے حجم میں اضافہ کی خواہش ایران کی طرح پاکستان میں بھی موجود ہے تاہم پاک ایران تجارت کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ بین الاقوامی پابندیاں اور بینکاری نظام کی عدم دستیابی ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے دونوں ممالک بین الاقوامی مالیاتی نظام سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اس کا حل یا تو بارٹر نظام کو مزید منظم کرنا ہے یا کسی تیسرے ملک (جیسے چین) کے ذریعے ادائیگیوں کا متبادل نظام ترتیب دینا۔ دونوں ممالک میں بعض شعبوں میں بیوروکریٹک تاخیر اور پالیسی میں تسلسل کی کمی بھی باہمی اعتماد کو متاثر کرتی ہے۔ پاک ایران تعلقات کی جڑیں صرف سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ ثقافتی، مذہبی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں۔ایران کی اکثریتی آبادی اور پاکستان کے عوام کے درمیان روحانی تعلق ایک اہم پہلو ہے۔ فارسی ادب، مشترکہ تہذیبی ورثہ اور صوفی روایات بھی اس تعلق کی روح ہیں۔ تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر تعلیمی، سیاحتی اور ثقافتی تبادلوں کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ تعلق صرف حکومتوں تک محدود نہ رہے۔پاکستان معاشی بحالی کی طرف رواں دواں ہے،معاشی بحالی کے لئے لازم ہے کہ ہاتھ آئے مواقع کسی صورت ضائع نہ کئے جائیں۔بین الاقوامی حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں،ان کا تبدیل ہونا نئے مواقع پیدا کرتا ہے، تنازعات کو حل کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے ۔حالات نے کئی وجوہات کی بنا پر ایسی کروٹ لی ہے کہ پاکستان و ایران ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ دونوں تجارتی تعلقات کے ساتھ تزویراتی سطح پر ایک دوسرے کے معاون بن سکتے ہیں۔ اگر پاک ایران تعلقات محض روایتی بیانات تک محدود رہے تو بہت جلد یہ موقع بھی ضائع ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ اقتصادی کمیشن کو فعال کریں، باقاعدہ تجارتی میلوں اور بزنس فورمز کا انعقاد کریں، اور پالیسی تسلسل کو یقینی بنائیں۔ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، سڑک اور ریلوے روابط کی بہتری، اور ڈیجیٹل تجارت کے میدان میں تعاون سے ان تعلقات کو حقیقی بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ صدر پیزشکیان کا دورہ پاکستان نہ صرف برادرانہ تعلقات کی علامت ہے بلکہ ایک موقع بھی ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کو رسمی بیانات سے نکال کر عملی میدان میں لے آئیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے اور ایک واضح حکمت عملی ترتیب دے۔ اگر دونوں ممالک اپنی داخلی سیاسی ترجیحات سے بلند ہو کر خطے کے مستقبل کا سوچیں، تو 10 ارب ڈالر تجارت کا ہدف ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here