معاشی صورت حال سے شہری پریشان ہیں۔ زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم والا وزیراعلی بن گیا ہے۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس بنیاد درکار ہے۔ آئین کی شق 63 اے واضح بیان کرتی ہے کہ وزیراعلی ،وزیراعظم کے انتخاب کے دوران اراکین پارلیمانی لیڈر یا پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ درپیش مقدمہ میں کوئی الجھائو نہیں۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے اسمبلی میں رولنگ دیتے ہوئے آئین اور سپریم کورٹ کے حکم نامے کی غلط تعبیر کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر ہی انتخابی عمل انجام دیا گیا تھا اس لیے اس عمل میں کسی نوع کی خرابی یا گڑ بڑ کو دور کرنا بھی سپریم کورٹ کا کام تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمی نے پہلی سماعت پر ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ وہ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے کس حکم کے تحت رولنگ دی۔ ڈپٹی سپیکر کے پیش نہ ہونے پر سماعت پیر کے روز اسلام آباد میں کی گئی اور ڈپٹی سپیکر کو ریکارڈ سمیت آنے کا کہا گیا۔ ڈپٹی سپیکر عدالت میں پیش نہ ہوئے جبکہ ان کے وکیل عدالت کے پوچھے سوالات پر قانونی جواب سے مطمئن نہ کر سکے۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلی انتخاب کے ساتھ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے گہرے سیاسی مفادات وابستہ ہیں اس لیے کوئی اس معاملے پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔حکمران اتحاد نے عدالت عظمی سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے بعد پیدا ہونے والے آئینی بحران پر فیصلے کے لیے فل کورٹ سماعت نہ ہونے پر سپریم کورٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید تشویشناک دکھائی دینے لگتی ہے جب حکمران اتحاد کے قائدین وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر ملک کی اعلی ترین عدالت کی کارروائی اور متوقع فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک کا وزیر خارجہ اس پریس کانفرنس میں معزز ججوں کے متعلق نامناسب گفتگو کرتا ہے۔ یہ صورت حال انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ پر بے اعتباری اور دو اہم ریاستی اداروں کے درمیان شدید نوعیت کی کشمکش کا پتہ دیتی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ان کے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ جناب چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے سے متعلق دلائل دیئے گئے اس لیے عدالت نے فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔ اصل سوال ارکان کو ہدایات دینے والی اتھارٹی سے متعلق تھا۔ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔ ڈپٹی سپیکر اور حکومت کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ کے سامنے عرفان قادر ڈپٹی سپیکر کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک اور صلاح الدین سمیت متعدد وکلا نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے متعلق عدالتی سوال پر دلائل دیئے۔ عدالت عظمی نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ نیک نیتی کے ساتھ دیا تھا۔ فل کورٹ ستمبر میں بن سکے گا اس دوران باقی کام روکے نہیں جا سکتے۔ فی الحال 2 ججز دستیاب ہیں۔ آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ایک تضاد قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر عدالتی فیصلے کی وجہ سے سامنے آیا۔ عدالت نے جب سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو غلط قرار دیا تو اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی میں قومی اسمبلی کی نسبت زیادہ واضح آئینی احکامات کی رہنمائی دستیاب ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے مسلم لیگ ق کی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے اور تمام 10 ارکان کے ووٹ مسترد کر کے واضح طور پر آئین کی خلاف ورزی کی۔ اس خلاف ورزی کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہو تی ہے۔ پنجاب میں حکومت ہاتھ سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ مرکز میں بھی پی ڈی ایم کا اقتدار برقرار نہیں رہ سکے گا۔ اقتدار کا آنا جانا ایک مستحکم اور باقاعدہ سیاسی عمل کا حصہ ہییہ وہ جزئیات ہیں جن سے حکومت حکومتی عہدیدار اور تمام اراکین پارلیمنٹ واقف ہیں۔ اس آگاہی کے باوجود کسی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کی حمایت پر اصرار ملک میں انتشار پھیلانے کے سوا کیا کرسکتا ہے۔ سیاسی قیادت کو معاشی بدحالی اور عام آدمی کے مسائل کا احساس کرتے ہوئے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک ہمہ نوع بحران کا شکار ہے۔ اس بحران کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب اختلاف کی بجائے اتفاق پیدا کرنے کے لیے کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔ آج کی اپوزیشن کل کی حزب اقتدار ہو سکتی ہے۔ تمام سیاسی سرگرمیاں اور فیصلے آئین کے تابع رہ کر کئے جاتے ہیں۔ وزیر مشیر وزیراعلی وزیراعظم اور صدر ہی نہیں ان کی معاونت پر مامور افراد بھی یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے وفادار رہیں گے اور ریاستی ذمہ داریوں کو خلوص نیت سے انجام دیں گے۔ اس حلف کے بعد اگر کوئی فرد حکومتی عہدہ رکھتا ہے اور ساتھ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہ کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اس کو آئین او رحلف کی خلاف ورزی اور بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔
٭٭٭