منصفوں سے کہاں بھلا ہوگا !!!

0
94

ایک مدت سے نظامِ عالم کے تحت قائم ریاستوں کو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے تین بنیادی ستونوں پر ایستادہ سمجھا جاتا ہے۔ ان تین ستونوں میں سے کوئی بھی کمزور پڑے تو مضبوط سے مضبوط ریاست بھی ڈگمگا جاتی ہے۔ یوں تو یہ تینوں ستون ہی یکساں اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں لیکن نظامِ انصاف یعنی عدلیہ اگر اپنا بنیادی کام کرنے کی اہل نہ رہے تو باقی دونوں ستون بھی بہت جلد دھڑام سے گر جاتے ہیں۔
چاہے وہ نظریہ ضرورت ہو یا PCO کے تحت نئے حلف ہوں, قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک، پاکستان کی اعلی عدلیہ، مقتدرہ کی زبردستیوں کے زیرِ دست ہی رہی ہے۔ بد قسمتی سے، موجودہ ورلڈ آرڈر کے دبا کے پیشِ نظر ، ہمارے آبائی وطن کی عدلیہ، مقتدرہ کے سامنے بالکل ہی اپنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ انصاف دینے والے، آج خود ناانصافیاں بانٹ رہے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کا تو پہلے ہی بیڑہ غرق تھا، اب اعلی عدلیہ بھی سر جھکا چکی ہے۔ مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران، دلائل اور ان پر منصفین کے تبصرے، ایک بات بتاتے ہیں جبکہ فیصلے کہیں اور سے لکھے ہوئے آجاتے ہیں۔ باقی رہ جانے والے چند جید اور آزاد منش منصفین کے پاس، اہم مقدمات کو لگایا ہی نہیں جاتا۔ اعلی عدلیہ کے صرف ان ہی فیصلوں پر عمل کیا جاتا ہے، جسے مقتدرہ اپنے لئے بہتر سمجھتی ہے۔ اس ساری صورتحال پر نوجوان شاعر عمران پرتاپ گڑھی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں۔
منصفوں سے کہاں بھلا ہوگا
اصل منصف سے معاملہ ہوگا
ہم نے رب کی رضا پہ چھوڑا ہے
اس عدالت میں فیصلہ ہوگا
ریاست کے انتہائی اہم ستون، عدلیہ کے اس طرح گرنے سے، مقننہ اور انتظامیہ کے دونوں ستون بھی ڈگمگا رہے ہیں۔ افراطِ زر، دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی غربت ملک کے مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث ہیں۔ مڈل کلاس سکڑتی چلی جا رہی ہے اور نوجوان بہت بڑی تعداد میں اپنے وطن کو خیر آباد کہہ رہے ہیں۔ کارخانوں کی بندش کی وجہ سے بیروز گاری اپنے عروج پر ہے۔ اپنے مستقبل سے مایوس لوگ آخر کب تک خاموش بیٹھیں گے؟ چند دن پہلے نافذ کیا جانے والے بجٹ بل نے تو معیشت اور معاشرے کی چولیں تک ہلا دی ہیں۔ امیر طبقے کیلئے دی گئی رعایتیں، غریبوں کی غربت کا مزاق اڑا رہی ہیں۔ ایک طرف تنخواہوں میں چھ سو فیصد اضافہ ہے اور دوسری جانب دس یا بیس فیصد !!! لگژری کاریں سستی اور چھوٹی کاریں مہنگی !!! جرائم پیشہ نفسیاتی مریض، جب میڈیا پر اپنی رہنمائی جتاتے ہیں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی ایک نا اہل فوج ظفر موج ہے جو عوام کے وسائل لوٹ کر عیش و عشرت میں مصروف ہے۔ یعنی!
نوروز و نوبہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
انتظامیہ کی نالائقی تو قدم قدم پر نظر آتی ہی ہے، مقننہ نے آئینِ پاکستان کا جو حشر کیا ہے یا کرنا چاہتی ہے، اس کی بھی کوئی مثال ملنا انتہائی مشکل ہے۔ مقتدرہ کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں پر چل کر چھبیسویں نمبر کی ایسی ناقص ترمیم کی ہے، جسے مزید ناقص بنانے کیلئے اب ستائیسویں ترمیم کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تضادات سے بھرپور قوانین مکمل طور پر ناقابلِ عمل ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایسی بے قدری ہے کہ جمہوریت کی روح تک کانپ اٹھی ہے۔ آمریت کی بیماری، بغیر کسی شناخت والے آمر کے، رات کی تاریکیوں میں کالے ویگو ڈالوں کے سہارے چل رہی ہے بلکہ دوڑ رہی ہے۔ ہر علاقے میں، لا قانونیت کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ عام آدمی کی چادر و چاردیواری کا تقدس بری طرح مجروح ہورہا ہے۔ ہمارے شعرا بھی اب اس طرح کی شاعری پر مجبور ہیں جیسے اتباف ابرک کے یہ اشعار۔
کیجے شکایتیں بھلا اب کس کے روبرو
قاضی بکا یہاں، یہاں دربار بک گئے
تلوار اب کہاں ، وہاں بنتی ہیں چوڑیاں
جس جس قبیلے والوں کے سردار بک گئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف کا نظام کمزور کو زور آور سے اس کا حق دلانے کیلئے قائم کیا جاتا ہے۔ ورنہ جنگل کے قانون، جہاں صرف Might is Rightb ہوتا ہے، وہاں اور ہمارے نظامِ انصاف میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس والا معاملہ ہی رکھنا ہے تو پھر ان عدالتوں کو بند کرکے، عوام کا قیمتی سرمایہ تو بچایا جانا چاہئے۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے کہ،
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون
میں ہی اپنا محتسب بن جاں ورنہ دوستو
گمرہ منزل ہوں یا ہوں راہ پر دیکھے گا کون
ایک دن مظلوم بن جائیں گے ظلموں کا جواب
اپنی بربادی کا ماتم عمر بھر دیکھے گا کون

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here