صد بار اگر توبہ شکستی باز آ !!!

0
65

عمارت کے صدر دروازے پر
ان کی ایک فارسی رباعی تحریر ہے
باز آ، باز آ، ہرآنچہ ہستی باز آ
گر کافر وگبرو بُت پرستی، باز آ
ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست
صدر بار اگر کو بہ شکستی باز آ
اردو ترجعہ!(واپس آجا، واپس آجا، تُو جو کوئی بھی ہے واپس آجا…اگر تُو کافر اور مشرک اور بت پرست بھی ہے تو واپس آ جا…ہماری یہ درگاہ نا اُمیدی کی درگاہ نہیں… اگر تُو سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے پھر بھی واپس آجا) مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگر علوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیرومرشد تھے آپ نے لوگوں کی اصلاح کی لیے شاعری کے ساتھ سبق آموز حکایات بھی لکھیں آپ نے ایک عابد شخص کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک بوڑھا عابد بڑا شب زندہ دار تھا پوری رات عبادت میں مصروف رہتا اور صبح اُٹھ کر لوگوں پر کڑوے کسیلیحملے کستا ساری رات پڑے سوتے رہتے ہو اپنی عبادت پر غرور کرتا اور بڑے فخر سے کہتا کہ درویش تو ماشاء اللہ چالیس سال سے شب زندہ دار ہے پوری رات عبادت مین مصروف رہتا ہے اور اپنی عبادت پر خوب اکڑتا۔ خدا سے تعلق کے دور میں اتنے خظرات باہر سے نہیں ہوتے جتنے اندر سے ہوتے ہیں یہ بہت نازک مرحلہ ہے نفس گمراہ کرتا ہے کہ تو بڑی شے ہوگیا تیرے جیسا عبادت گزار اور کوئی نہیں شیطان گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے بس وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہوگیا۔ ایک شب حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے ذہین مین ہی بات آئی کہ! تمہاری ایک بھی عبادت قبول نہیں …صبح آٹھ کر روتا ہے کسی سے بات نہیں کرتا زار وقطار آنسو بہا رہا ہے اتنے میں اس کا ایک بے تکلف دوست آگیا اس نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔۔ جتنی عبادت تھی منہ پر مار دی گئی پوری چالیس سالہ عبادت نامنظور ہوگئی پوری چالیس سالہ عبادت کی کوئی قیمت نہیں پڑی تو میں نہ روئوں! وہ دوست بھی بڑا عجیب تھا کہنے لگا جب چالیس سالہ عبادت کی کوئی قیمت نہیں بنی تو تم ہی چھوڑ دو مزے کرو جب قبول نہیں کرتا تو چھوڑ دو، تو کہنے لگا یہ تو نے کیا کہہ دیا۔
توانی اذن دل بہ پر داختن
تو دانی کہ بیاُو تماساختن
یہ تو نے کیا کہہ دیا وہ تو محبوب ہی ایسا ہے کہ قبول کرے یا نہ کرے خوش ہو یا ناراض ہو اسکو چھوڑا نہیں جاسکتا اس لیے کہ اس کو سجدے کرنے والوں کی بھی کمی نہیں اسکے آگے آنسو بہانے والوں کی بھی کمی نہیں طواف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں کائنات کا ذرہ ذرہ ہر وقت اس کی حمد وثنا میں لگا ہوا ہے لیکن میرے لیے تو اس در کے سواء کوئی در نہیں۔ تنگ دستی کے ہاتھوں سے جو میں گھبراتا ہوں پر درغیر پہ جاتے ہوئے شرماتا ہوں ہاتھ پھلانے میں محتاج کو غیرت کیسی شرم اتنی ہے کہ بندہ تیرا کہلاتا ہوں ۔ وہ قبول کرے یا نہ کرے لیکن اس کا در چھوڑ کر کہاں جائوں یہ ٹوٹے پھوٹے ہی سہی لیکن یہ سجدے ہیں اسی کے سارا دن روتے ہوئے گزرا رات ہوگئی۔
پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگیا آواز آئی
قبول است گرچہ ہنر نیستت
کہ جز ما پناہ دگر نیستت
فرمایا ہم نے تیرا یہ سجدہ بھی قبول کر لیا اور گزشتہ چالیس سالہ عبادت بھی قبول کرلی۔ جب ہم نے تیرے منہ سے یہ سنا کہ ہمارے سواء تیرا اور کوئی نہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں! اے گناہ گار اگر تو نے سو بار بھی توبہ کرکے توڑ دی ہے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ایک بار پھر میرے در پر آکے دیکھ ندامت کے آنسو بہا کر دیکھ طلب کا دامن پھلا کے دیکھ تیرے آنے میں دیر ہوسکتی ہے میرے راضی ہونے میں دیر نہیں ہوگی۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here