دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ایک تشویشناک حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی، صنعت اور معیشت نے بے پناہ ترقی کی ہے، وہیں دوسری طرف کروڑوں انسان بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تضاد اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ترقی کے ثمرات سب تک نہیں پہنچ پائے اور دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے۔غربت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معاشی عدم مساوات ہے۔ دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے اور امیر طبقہ مسلسل دولت اکٹھی کرتے جا رہے ہیں جبکہ غریب افراد کے لیے وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم نہ صرف معاشی فرق کو بڑھا رہی ہے بلکہ غربت کو بھی جنم دے رہی ہے۔ جب چند افراد یا کمپنیاں اربوں ڈالرز کے مالک بن جائیں اور دوسری طرف کروڑوں افراد دو وقت کی روٹی کے لیے ترسیں، تو یہ صورتحال خود بخود غربت کو بڑھاتی ہے۔عالمی سطح پر مہنگائی کا رجحان بھی غربت میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ اشیائے خور و نوش، ایندھن، ادویات اور رہائش کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ مزدور طبقے کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اس مہنگائی نے نہ صرف غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے بلکہ متوسط طبقہ بھی تیزی سے غربت کی لکیر کے قریب پہنچ رہا ہے۔ جب ضروریات زندگی کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہو جائیں تو لوگ قرض میں ڈوبنے لگتے ہیں، اور یوں غربت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔روزگار کے مواقع کم ہونا بھی ایک اہم عنصر ہے۔ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے کئی پرانے شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لے لی ہے۔ روبوٹس اور مشینوں کے استعمال سے کمپنیوں نے پیداوار تو بڑھا لی ہے، مگر لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ تعلیم اور مہارت نہ ہونے کی وجہ سے غریب طبقے کو مناسب نوکریاں نہیں ملتیں، جس سے غربت کی زنجیر مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات بھی غربت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ سیلاب، قحط، زلزلے اور دیگر قدرتی سانحات کسانوں کی فصلیں تباہ کر دیتے ہیں اور غریب افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر پناہ گاہوں کی طرف جانا پڑتا ہے۔ یہ آفات ان علاقوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں جہاں پہلے ہی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ان کے اثرات نہ صرف عارضی ہوتے ہیں بلکہ طویل المدتی غربت کو بھی جنم دیتے ہیں۔جنگیں اور سیاسی عدم استحکام بھی دنیا میں غربت بڑھنے کا ایک نمایاں سبب ہیں۔ جہاں بھی جنگ ہوتی ہے، وہاں معیشت تباہ ہو جاتی ہے، روزگار ختم ہو جاتا ہے، اور عوام بے گھر ہو کر مہاجر بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں بچوں کی تعلیم رک جاتی ہے، صحت کی سہولیات ناپید ہو جاتی ہیں، اور لوگ غربت میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ فلسطین، افغانستان، شام اور یمن جیسے ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں۔بدقسمتی سے، بین الاقوامی ادارے اور حکومتیں غربت کے خاتمے کے لیے جو پالیسیاں بناتی ہیں، وہ اکثر ناکافی، غیر منظم یا بدعنوانی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان پالیسیوں کا فائدہ اصل مستحقین تک نہیں پہنچتا، جس سے حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر مثر، شفاف اور منصفانہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کا ثمر ہر انسان تک پہنچ سکے۔ جب تک دنیا انصاف، تعلیم، روزگار اور بنیادی سہولیات کی منصفانہ فراہمی کو یقینی نہیں بناتی، غربت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور انسانیت کا ایک بڑا حصہ محرومی کی زندگی گزارتا رہے گا۔
٭٭٭















