محترم قارئین! ابن سعد نے کہا گود میں نہیں تیرے قدموں کی ٹھوکر پہ ڈال سکتا ہو ںاگر راضی ہو تو اقرار کر۔ ظالم نے پھر زخموں پر نمک چھڑکا، پھر حرم کے قیدی تلملا اٹھے، اضطراب میں بجھی ہوئی ایک آواز کان میں آئی۔ بدبخت نوجوان جنت کے سردار سے گستاخی کرتا ہے۔ کیا تجھے یہ خبر نہیں کہ یہ کٹا ہوا سر اب بھی دو جہاں کا مالک ہے ذرا غور سے دیکھ بوسہ گاہ مصطفیٰۖ پر انوار دوتجلیات کی کسی بارش ہو رہی ہے؟ صرف جسم سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے عرش کا رابطہ اب بھی قائم ہے اس آواز پر ہر طرف سناٹا چھا گیا اسی عالم اندوہ میں اسیران اہل بیت کا یہ تاراج قافلہ کوفہ پہنچا۔ مارے شرم و بیعت کے ابن سعد نے شہر کے باہر جنگل سے قیام کیا۔ رات کے سناٹے میں حضرت زینب رضی اللہ عنھا مناجات ودعا میں مشغول تھیں ایک ہلکی آواز کان میں آئی ”بی بی” میں حاضر ہو سکتی ہوں؟ نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک بڑھیا سر پر چادر ڈالے منہ چھپائے سامنے کھڑی تھی اجازت ملتے ہی قدموں پر گر بڑی اور دست بستہ عرض کیا میں ایک غریب ومحتاج عورت ہوں۔ بھوکے پیاسے آل رسولۖ کے لئے تھوڑا سا کھانا اور پانی لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ بی بی میں غیر نہیں ہوں ایک مدت تک شہزادی رسول ۖ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی کنیزی کا شرف حاصل رہا ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ سیدہ کی گود میں ایک ننھی منھی بچی تھی جس کا نام زینب تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنھ نے اُبلتے ہوئے جذبات پر قابو پاکر جواب دیا تو نے اس جنگل میں اور پھر پردیس میں ہم مظلوموں کی مہمان نوازی کی ہماری دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔ خدا تجھے دارین میں خوشی عطا فرمائے بڑھیا کو جب معلوم ہوگیا کہ یہی سیدہ زینب ہیں تو چیخ مار کر گلے سے لپٹ گئی اور اپنی جان بنت رسولۖ کے قدموں پر نثار کردی۔ عشق واخلاص کی تاریخ میں ایک نئے شہید کا اور اضافہ ہوگیا۔ دوسرے دن ظہر کے وقت اہل بیت کا لٹا ہوا قافلہ کوفے کی آبادی میں داخل ہوا۔ بازار میں دونوں طرف سنگدل تماشائیوں کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے خاندان نبوت کی بیویاں شرم وغیرت سے گڑھی جارہی تھی۔ سجدے میں سر جھکا لیا تھا کہ معصوم چہروں پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔ وغورغم سے آنکھیں اشکبار تھیں دل رو رہے تھے۔ اس احساس سے زخموں کی ٹیس اور بڑھ گئی تھی کہ کربلا کے میدان میں قیامت ٹوٹنا تھی ٹوٹ گئی۔ اب محمد عربی ۖ کی ناموس کو گلی گلی پھرایا جارہا ہے کلمہ پڑھنے والی امت کی غیرت دفن ہوچکی تھی ابن زیاد بدنہاد کا دربار نہایت تزک و احتشام سے آراستہ کیا گیا تھا۔ فتح کے نشے میں سرشار، تخت پر بیٹھا ہوا ابن نہاد اپنی فوج کے سرداروں کی زبانی کربلا کے واقعات سن رہا تھا۔ سامنے ایک طشت میں امام عالی مقام کا سر انور رکھا ہوا تھا ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی وہ بار بار امام علی مقام رضی اللہ عنہ کے لبہائے مبارکہ کے ساتھ گستاخی کر رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ اسی منہ سے خلافت کا دعویدار تھا دیکھ لیا قدرت کا فیصلہ حق سر بلند ہوا، باطل کو ذلت نصیب ہوئی۔ نعوذباللہ، صحابی رسولۖ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اس وقت دربار میں موجود تھے ان سے یہ گستاخی دیکھی نہ گئی جوش عقیدت میں چیخ پڑے ظالم! یہ کیا کرتا ہے؟ چھڑی ہٹاے نسبت رسول کا احترام کر، میں نے بارہا دیکھا ہے کہ سرکارۖ اس چہرہ انور کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن زیاد نے غصہ سے پیچ وتاب کہتے ہوئے کہا: تو اگر صحابی رسول نہ ہوتا تو میں تیرا سر قلم کروا دیتا حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ نے حالت غیظ میں جواب دیا اتنا ہی تجھے رسول اللہۖ کی نسبت کا خیال ہوتا تو ان کے جگر گوشوں کو تو کبھی قتل نہ کرواتا۔ تجھے ذرا بھی غیرت نہیں آئی کہ جس رسول کا تو کلمہ پڑھتا ہے انہی کی اولاد کو تہہ تیغ کرایا ہے ابن زیاد یہ زلزلہ خیز جواب سن کر تلملا گیا لیکن مصلحتاً خون کا گھونٹ پی کے رہ گیا۔ اسیران حرم کے ساتھ ایک بوسیدہ چادر میں لپٹی ہوئی حضرت سیدہ زینب ایک گوشے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کی کنیزوں نے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے لیا تھا ابن زیاد کی نظر پڑی تو دریافت کیا کہ یہ کون عورت ہے؟ کئی بار پوچھنے پر ایک کنیز نے جواب دیا زینب بنت علی رضی اللہ عنھا ابن زیاد نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا خدا نے تیرے سرکش سردار تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈا کردیا۔ نعوذباللہ ابن زیاد کے اذیت ناک جملے پر حضرت سیدہ زینب اپنے تئیس سنبھال نہ سکیں۔ بے اختیار پر پڑیں۔واللہ! تو نے میرے سردار کو قتل کر ڈالا میرے خاندان کا نشان مٹایا میری شاخیں کاٹ دیں میری جڑی اکھاڑ دی اگر اس سے تیرا دل ٹھنڈا ہوسکتا ہے تو ہو جائے۔ اس کے بعد اس کی نظر عابد بیمار پر پڑی وہ انہیں بھی قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ سیدہ بے قرار ہو کر چیخ اٹھیں میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں اگر تو اس بچے کو قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجھے اس کے ساتھ قتل کر ڈال۔
ابن زیاد پر دیر تک سکتے کا عالم طاری رہا اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا! خون کا رشتہ بھی کسی عجیب چیز ہے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ سچے دل سے لڑکے کے ساتھ قتل ہونا چاہتی ہے۔ اچھا اسے چھوڑ دو یہ اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ جائے۔ اس واقعہ کے بعد ابن زیاد نے جامع مسجد میں شہر والوں کو جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے کہا اس خدا کی حدود ستائیش جس نے امیرالمئومنین یزید بن معاویہ کو غالب کیا اور کذاب ابن کذاب حسین بن علی کو ہلاک کر ڈالا۔ العباذباللہ اس اجتماع میں مشہور محب اہل بیت حضرت ابن عضیف رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ان سے ابن زیاد بدنہاد کے خطبے کے یہ الفاظ سن کر رہا نہ گیا۔ لکارتے ہوئے بولے! خدا کی قسم تو ہی کذاب ابن کذاب ہے حسین سچا اس کا باپ سچا اس کے نانا سچے، ابن عضیف رضی اللہ عنہ کی اسی وجہ سے شہید کر دیا گیا کوثر کے ساحل پر جان نثاروں کی تعداد میں ایک عدد کا اور اضافہ ہوا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے