پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان معاہدے!!!

0
58

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ڈھاکہ میں چھ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط باہمی تعاون کی جانب ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ برسوں بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا اعلی سطحی دورہ نہ صرف علامتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ خطے میں نئی صف بندیوں اور بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے پانچ برسوں میں پانچ سو سکالرشپس دینے کا اعلان ایک ایسا قدم ہے جو محض تعلیمی تعاون نہیں بلکہ عوامی سطح پر پائیدار روابط کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ تعلیم ہی وہ میدان ہے جو قوموں کو دیرپا بنیادوں پر جوڑتا ہے اور یہ موقع دونوں معاشروں کے درمیان اعتماد کی نئی فصل اگانے کا باعث بن سکتا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مذاکرات میں تجارت، معیشت، عوامی روابط، ثقافت، تعلیم اور انسانی ہمدردی جیسے متنوع موضوعات زیر بحث آئے۔ یہ تمام نکات مل کر اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو محض رسمی یا سفارتی سطح پر محدود رکھنے کے بجائے اسے وسیع بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو خطے کی سیاست کو مثبت رخ دے سکتی ہے، بشرطیکہ معاہدے کاغذی کارروائی سے آگے بڑھ کر عملی سطح پر تیزی سے نافذ ہوں۔علاقائی اور عالمی امور پر بھی بات چیت اس امر کی غماز ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے تعلقات کو دو طرفہ تعاون تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔ سارک کی بحالی کا معاملہ برسوں سے تعطل کا شکار ہے اور جنوبی ایشیا میں کسی بھی علاقائی تعاون کے لیے اس پلیٹ فارم کی فعالیت ناگزیر ہے۔ یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کی نوعیت پر بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات کا بھی گہرا اثر ہے۔ بنگلہ دیش کا جغرافیائی محل وقوع اسے خطے کی طاقتوں کے درمیان ایک اہم فریق بناتا ہے۔ پاکستان اگر ڈھاکہ کے ساتھ روابط کو ازسرنو استوار کرتا ہے تو یہ دراصل جنوبی ایشیا میں ایک متوازن سفارتی حکمتِ عملی کی تشکیل بھی ہوگی۔ دونوں ممالک کو یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ وہ خطے کی ترقی میں ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ شراکت دار بن سکتے ہیں۔عوامی روابط کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ حکومتیں تعلقات قائم کرتی ہیں لیکن انہیں دیرپا بنانے کا کام عوام انجام دیتے ہیں۔ اگر سرکاری افسران کے ساتھ تاجروں اور ثقافتی شخصیات کے لیے بھی ویزہ فری سہولت فراہم کی جائے تو اس کے اثرات براہِ راست دونوں ملکوں کی سماجی فضا پر مرتب ہوں گے۔ ثقافتی تبادلے اس فاصلے کو کم کرتے ہیں جو سیاسی اختلافات یا تاریخی تلخیاں بڑھا دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کے فن، موسیقی، ادب اور فلموں کو قریب سے جاننے کا موقع ملے تو بدگمانیوں کی جگہ قربت لے سکتی ہے۔ اسی طرح تجارتی تعلقات کا دائرہ وسیع کرنا دونوں ممالک کی معاشی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ترقی پذیر معیشتیں ہیں جنہیں اپنی پیداوار اور برآمدات کے لیے نئی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ اگر باہمی تجارت کو سہل بنایا جائے اور کسٹم ڈیوٹیز، غیر ضروری رکاوٹوں اور سفری مشکلات کو کم کیا جائے تو دونوں ممالک کے تاجر براہِ راست ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ عوام کی زندگی میں خوشحالی کا ایک نیا در کھلے گا۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ بنگلہ دیش میں تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں، اس بات کی علامت ہے کہ اسلام آباد نے ماضی کی تلخیوں سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ بیانیہ ڈھاکہ کے لیے بھی امید افزا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ اسلام آباد نے اسے برابر کا شراکت دار تسلیم نہیں کیا۔ معاہدوں پر عمل درآمد کی رفتار تیز رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے خطے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ معاہدے اکثر دستخطوں اور تصویروں کی حد تک محدود رہتے ہیں۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش اس روایت کو بدلنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ نہ صرف ان کے باہمی تعلقات بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثبت مثال ثابت ہو گا۔ عمل درآمد ہی وہ پیمانہ ہے جو نیک خواہشات کو حقیقت کا روپ دیتا ہے۔ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ڈھاکہ میں ہونے والی پیش رفت ایک نئی سمت کی بنیاد ڈال رہی ہے۔ لیکن اس سمت کو پائیدار بنانے کے لیے صرف سیاسی قیادت کی نیت کافی نہیں، عوامی سطح پر اعتماد کی فضا قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ اعتماد وہ سرمایہ ہے جس کے بغیر نہ تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں نہ معاہدے دیرپا۔ اگر عوام کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ دونوں ممالک واقعی ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں تو باقی رکاوٹیں ازخود دور ہوتی چلی جائیں گی۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ایسے میں اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی باہمی ترقی بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی خوش آئند ہوگا۔ آخرکار تعلقات کی پائیداری کا انحصار اسی بات پر ہے کہ حکومتوں کی سطح پر ہونے والی بات چیت عوامی سطح پر کس حد تک گونج پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ گونج مثبت اور پرامید رہی تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش ایک نئے باب کا آغاز کر سکتے ہیں، ایسا باب جس میں ماضی کی تلخیاں پیچھے رہ جائیں اور مستقبل کے امکانات روشن دکھائی دیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here