عید قربان کے ایام میں آوارہ کتوں کی موج ہوا کرتی ہے۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ہر گلی اور محلے میں انکا ترنوالہ ہوتی ہے۔ جس پر یہ اپنا ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں گذشتہ ستر سال سے حکمرانوں اور جرنیلوں کی عید قربان ہے۔ جنہوں نے مملکت خداد کو آوارہ کتوں کی طرح نوچ نوچ کا کھایا ہے۔ انتہائی ڈھٹائی اور بے حیائی سے امن و آتشی کا درس بھی دیا جارہا ہے۔ اس مقدس گائے پر تنقید حرام ہے۔ محترم قارئین کرام!! پاکستان ھمارا گھر ہے۔ جو ھماری آن،شان اور جان ہے۔ جب ھماری جان، یعنی روح جسے نظریہ پاکستان کہتے ہیں اگر جسم سے روح جدا کردی جائے۔ تو انسان مردہ کہلاتا ہے۔ اسکے بولنے،سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ آج میرا گھر جسے اپنوں کے ہاتہوں بے جان کردیا گیا ہے۔ اس کے جسم کی روح (آئین پاکستان) ختم کردیا گیا ہے۔ اس پر پلید اور نجس اور آوارہ کتوں کا راج ہے۔ جنہوں نے اس گھر کی عزت، وقار کو داغ دار تو کیا تھا۔ مگر ان ظالم درندوں نے اس کے مکینوں کو زندہ درگور کردیا ہے۔ اس پر راج کرنے والے آوارہ کتے ،اس کے لاشے کو ہر روز نوچ رہے ہیں۔ جن کا مسکن امریکہ ،آسٹریلیا اور یورپی ممالک ہیں۔ مسلمان معاشرہ میں کتانجس اور پلید تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ انہیں اپنی چادر اور چاردیواری کے تخفظ اور بیرونی خطرات سینمٹنے کے لئے گھروں میں رکھتے ہیں۔ ہمارا گھر لاکھوں قربانیوں ،خون کی ندیاں بہانے کے بعد تعمیر ہوا۔ اسکے مخافظ اسکے بیسک نظریہ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ ستر سال سے یہ درندے مختلف انداز میں ھماری چادر اور چار دیوار کو پامال کرتے رہے۔ ہم انکی محبت میں گرفتار،ان پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ قارئین !جب آپکا مخافظ ، آپکا پالتو آپ پر حملہ آور ہو، آپکی گردن پکڑ لے۔تو بتائیے آپ کیا کریں گے۔ آج ھمارے گھر پر یہ جانور حملہ آور ہیں۔ ھمارے بچوں کو اٹھا کر غائب کرتے ہیں۔ گھروں میں گھس کر عورتوں کو ننگا کرتے ہیں۔ لوگوں کی ننگی ویڈیوز بناتے ہیں۔ بلیک میل کرتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ مخافظ ،رکھوالے یا عزت کے قابل ہوسکتے ہیں جو اپنی بیٹی عافیہ کو غیروں کے ہاتھ بیچتے ہیں۔ ملکی اثاثوں کی خبریں اپنے آقاں کو دیتے ہیں جنکے یہ پالتو ہیں۔ ان جانوروں سے بہت زیادہ عشق کرنے والوں کی جب بیٹیاں گھروں سے اٹھائی گئیں انہیں ننگا کر کے ویڈیوز بنائی گئیں۔ انکی املاک کو توڑا گیا۔ تو انکا عشق ردی کی ٹوکری کی نظر ہوا۔جب آپکا اکلوتا بیٹا اٹھا لیا جائے۔ تو کیا آپ اپنا منہ سی لینگے ۔ آپکے سامنے آپکی ماں ،بہن اور بیٹی کو ننگا کیا جائے تو کیا آپ ان آوارہ کتوں کی محبت کے ترانے گائیں گے۔
امریکی جج نے کہا تھا کہ پاکستانی جج پیسوں کی لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتا ہے۔ وہ جرنیلوں اور سیاسی گماشتوں کا نام لینا بہول گیا تھا۔ جو روزانہ اپنی ماں کا سودا کرتے ہیں۔ ریاست ماں ہے جسے پالتو جرنیلوں، ججوں اور سیاسی مداریوں نے آئی ایم ایف کے ہاتہوں بیچ دیا ہے۔ اسکے ہر ادارے اور ائیرپورٹس کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ پیدا ہونے والا بچہ بھی چار لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ نا بجلی ہے نا پانی، زرعی ملک ہونے کے باوجود چاول، گندم اور دالیں امپورٹ کر جارہی ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے نظام زندگی جو مفلوج کردیا ہے۔ حکمران، جہوٹے،بے ایمان، گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ جنہیں بدحال قوم پر ترس نہیں آتا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جہوٹ ایمان اور رزق کو کھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بے ایمان ہوچکے ہیں۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہر چیز میں دو نمبری ۔ جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہر چند سال بعد لوٹا پارٹیاں لائی جاتی ہیں۔ جرنیل مجرموں کی پناہ گاہیں ہیں۔ انکیوں نے بلوچ اور پختون میں نفرت کا بیج بویا۔سندھی اور مہاجر میں دشمنی پیدا کی۔پنجابی اور سندھی میں نفرت پیدا کی ۔
پولیٹیکل سسٹم کو کمزور کیا۔ ان جانوروں نے آزاد خارجہ پالیسی کو امریکہ کی جولی میں ڈال دیا۔پاکستان اسٹیٹجیک حوالے سے دینا کا گیٹ وے ہے۔ اس گیٹ وے کو کمزور کرنے والے یہی جرنیل ہیں۔ جو نیٹو کے اور کبھی امریکہ کے پالتو کتوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بکا ہیں۔ مجرم ہیں ۔ ملک کو دولخت کرنے والے بزدل جرنیل بیغرت ہیں۔ جو عورتوں کی ناموس پر ہاتھ ڈالتے ہیں ۔ یہی کام اسرائیلی کتے فلسطینیوں بیٹیوں سے کرتے ہیں۔ انڈین کتے کشمیری بہو بیٹیوں سے کرتے ہیں، ان پالتو جرنیلوں کو قاضی حسین احمد مرحوم کڑوڑ کمانڈرز کہا کرتے تھے۔
پاکستان کے خالق قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھاکہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی جو ہر شہری سے پیار کریگی۔ جب آپکے وسائل آپ سے چھین لیے جائیں ۔ آپکے بچوں کو بہوکا تڑپنے کے لئے چہوڑ دیا جائے تو کیا آپ پہولوں کے گلدستے پیش کرینگے۔ یا نوٹوں کی مالا پہنائیں گے۔
اگر کتا کنواں میں گر جائے تو دو سو بالٹی پانی کو قابل استعمال کرنے کے لئے کتا کو کنویں سے نکالنا ضروری ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کتوں کی عید ہے۔ یہ کتے ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہئں۔ جن کے مفادات ملک سے باہر ہئں ۔ کتے کو درندہ اور خطرناک جانور تصور کیا جاتا ہے۔ ان جانوروں میں تھری سٹار، اور فور سٹار جانور شامل ہئں ۔ جو اپنی ملازمت کے فورا بعد ملک چہوڑ کر اپنے آقاں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے لئے انتہائی خوبصورت جزیرے ، خوبصورت پلازے ، بہترین رہائشیں اور ولاز آسٹریلیا، امریکہ، نیوزی لینڈ ، دوبئی، ہالینڈ اور انگلینڈ میں منتظر رہتے ہیں۔ یہ خونخوار درندے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ملکر ملکی دولت لوٹتے ہیں۔ ان میں کچھ کتے رشین ، کچھ امریکن، کچھ جرمن اور کچھ انگلش النسل کتے ہیں۔ بیشک یہ کتے پاکستان میں رہتے ہیں مگر ان کا اسٹیک ملک سے باہر ہے۔ پراپرٹیز ملک سے باہر ہیں۔ پلازے پاکستان سے باہر ہیں ۔ یہ ھمارے گھر کے وفادار کیسے ہوئے؟
کتا جس گھر میں رہتا ہے اس گھر کے مکینوں کا مخافظ ہوا کرتا ہے۔ وفادار ہوا کرتا ہے۔ جب یہ مخافظ خونخوار ہوجائے ۔ اپنے گھر وولوںپر حملہ کردے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ جانور جانور ہی رہتا ہے۔ اس میں نہ تہذیب ہوئی ہے نہ تمدن۔ نہ اخلاقیات ہوتیں ہیں نہ شعور۔لیکن یہ جانور تو اس کتیا سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ جو اپنے بچے کی خفاظت اپنا فرض سمجھتی ہے۔
بولنے اور سننے والوں کو بھی پابند سلاسل، رشتے داروں اور دوستوں کو بھی عقوبت خانوں میں بند۔ مہنگائی اور ٹیکسوں نے جینا دو بھر کردیا۔ نظریہ پاکستان کے خالق ستاروں پر کمند ڈالنے کی بات کرتے تہے۔ لیکن ہم غیروں کی کمند بن بیٹھے بیں۔ملکی دولت، وسائل سمیٹ کر بیرونمالک تجوریا بھر رہے ہیں اور خود غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں۔ کیا ایسی قوم، ایسی فوج، ایسے حکمران غیرت مند ہوسکتے ہیں۔ جن کا انگ انگ گروی ہو۔ جن کی زبان میں غیروں کے الفاظ ہوں۔ ایسے لوگوں اور ماں فروشوں میں فرق نہئں ہوا کرتا ۔ کیونکہ کتا اسی کےآگے دم ہلاتا ہے جو اسے ہڈی ڈالتا ہے۔ لیکن کتا بھی وفادار جانور ہے۔ ھمارے حکمران اور جرنیل کتوں سے بھی گھٹیا ثابت ہوئے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اس بار قربانی کے جانور بغیر کھال ہی ذبیح کرلو۔ کیا پتہ اسحاق ڈالر کھال پر بھی ٹیکس لگا دے۔ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ جنازوں ہر بھی کریک ڈان کیا جاتا ہے۔ جانور جانور ہی رہتا ہے۔ اس میں نہ تہذیب ہوئی ہے نہ تمدن۔ نہ اخلاقیات ہوتیں ہیں نہ شعور۔ لیکن یہ جانور تو اس کتیا سے بھی گئے گزرے ہیں ۔جب کتے کا بچہ مرے تو کتیا بچہ اٹھا کر گڑھا کہود کر دفن کرتی ہے۔ کیا ہم اس کتیا سے بھی گئے گزرے بیں کہ مردوں کو دفنانے بھی نہیں دیتے۔یہ درندگی اور ظلم تو ہندو فورسیز کشمیر میں بھی نہیں ڈھا رہے۔ خدار اپنے اندر خوف خدا پیدا کریں ۔ آپ نے اس رب کے خضور پیش ہونا ہے جو ہر ظلم کا حساب ناپ تول کر کرے گا۔ جب ریاست ان درندوں کے ہاتہوں مخفوظ نہ ہو۔ اسکے راز اپنے آقاں کو پہنچاتے ہوں ۔ اسکی بنیادوں کو کہوکھلا کرتے ہوئے ۔ سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ ملکر ریاست کے باسیوں کو تیع تیغ کرتے ہوں ۔ تو آپ ہی بتائیے ان جانور درندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ ؟ ان جانوروں کا کام گھروں کی خفاظت ہے ناکہ گھروں کے اندر گھس کر عورتوں کو ننگا کرنا۔ یہ خلائی، درندے بلوچستان کے معدنیات پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ قیمتی زمینوں کو ہتھیاتے ہیں۔ بولنے پر زبانیں کاٹتے ہیں۔ نوجوان بچوں کوغائب کرتے ہیں۔ زندہ درگور کرتے ہیں۔ کیا انکے لئے محبت اب بھی واجب ہے جب آپکی اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو آپکے سامنے ننگا کیا جائے۔ رسوا کیا جائے۔جب گھر کے مخافظ غیروں سے مل جائیں ۔ جنکی پراپرٹیز اور مفادات ملک سے باہر ہوں ۔انہیں ہم پر زور زبردستی مسلط کردیں تو بتائیں آپکے ووٹ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ الیکشن اور انتخاب بے معنی ہوجاتے ہیں۔ جب سلیکشن ہو تو الیکشن کی ایکسرسائز ، اربوں کھربوں کا ضیاع کس لئے۔؟ کیا یہ ملک اسی لئے بنایا گیا تھا۔ اس کا نظریہ یہی تھا۔ کہ لوٹو اور پہوٹو۔؟ انقلاب ایران کی بعد دو سو جرنیلوں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں ۔ جنہوں نے ایرانی معاشرہ میں ننگ دھڑنگ اور بے حیائی کو سرایت کیا تھا۔آج ایرانی امریکہ اور نیٹو کی آنکہوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ یہی کام ستر سال سے ھمارے جرنیلوں اور ججوں نے کیا ہے۔ *کیا کبھی کسی نے پوچھا ہے کہ سابق آرمی چیفس اور سابق جج اس ملک میں رہنا کیوں گوارا نہیں کرتے ۔؟ ٭انکے پاس اربوں روپے کی پراپرٹیز کہاں سے آئی۔؟ *سسک سسک کر جینا میرا اور آپکا مقدر ہی کیوں ۔؟ *اعلی تعلیم کے دروازے میرے آپکے بچوں پر بند کیوں۔؟ انصاف کی دروازے عام شہری پر بند کیوں۔؟ انصاف کی دروازے عام شہری پر بند کیوں۔؟ پاکستانی قوم سے قربانی لینے کے لئے ہر چند سال بعد ٹیکنوکریٹس کو لایا جاتا ہے اور کبھی امپورٹیڈ اسٹیٹ بینک کے نمائندے۔جرنیلی مافیا ورلڈ بینک کے نمائندوں کو پاکستانی معشیت کی تباہی کی لئے مسلط کرتے ہیں۔ حکمران اتنے بیشرم ہیں کہ گستاخء قرآن پر نہ کوئء احتجاج اور نہ کوئی اسٹیٹ منٹ ۔ مودی کے امریکہ میں تضہیک آمیز بیان پر کوئی جواب۔ راج ناتھ کی پاکستان پر حملہ کی دھمکی پر خاموشی۔ یہ بیغرتی قوم کب تک برداشت کرئے گی۔ گزشتہ کئے سالوں سے قرآن پاک کو جلانے اور نبء کریم کے خلاف گستاخانہ خاکے بنا کر دوارب مسلمانوں کو ٹارچر کیا جاتا ہے۔ دنیا میں ساٹھ مسلم ممالک کو اپنے اپنے ملک سے سویڈن کے سفیروں کو نکال باہر کرنا چاہئے۔ ملک میں چوروں اور کریمنلز کھل کر کھیلنے دیا جارہا ہے۔ ملک پر ڈکٹوریل رجیم قابض ہے۔ جو مملکت کی زمینوں،اداروں ،ایکٹوریل سسٹم، عدلیہ، الیکشن کمیشن پر قابض ہے۔ آئین کو تلپٹ کرنا، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ کرنا۔اسپیکر اور چئیرمین سینٹ اپنی منشا کے فرد کا لانا۔ انکا متمع نظر رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں نا الیکشن ہیں نا ریفارمز ۔ ایک ایک سیٹ پر کڑوڑوں روپے کے اخراجات۔ مجرم،قاتل،کرپٹ لوگوں کو الیکشن لڑوانا ۔جس پر الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔مجرموں ، دھوکے بازوں اور دغا بازوں کو اقتدار سونپا جاتا ہے۔ یہی وہ آوارہ کتے اور خونخوار جانور ہیں جو ھماری future جنریشن کے دشمن ہیں۔ پاکستانیو! مظلوموں کی آواز بن جائیں محکوموں کے مددگار بن جائیں ۔یہ کام صرف جماعت اسلامی کی قیادت کرسکتی ہے۔ اب وقت ہے کہ آو مل کر پاکستان بچائیں ۔
٭٭٭