تجزیہ: نادیہ سلہری
واشنگٹن میں موجود ایک سابق افغان سفارتکار نے افغانستان میں مقیم اپنے خاندان کے دیگر افراد کے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایک امریکی اخبار کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تین سال قبل افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کے دوران واشنگٹن کی حمایت یافتہ افغان حکومت کی تقریباً پوری قیادت نے فرار ہونے سے قبل ملکی خزانے میں موجود کئی بلین ڈالرز بھی اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے ایک سازش کے تحت طالبان کے سامنے سرنڈر کیا تاکہ وہ آسانی سے کنٹرول حاصل کر لیں۔ صدر اشرف غنی نے اندرون خانہ فرار ہونے سے قبل طالبان سے گارنٹی لی تھی کہ وہ سرکاری بنکوں میں موجود ڈالرز بھی اپنے ساتھ لیکر جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ باقی ماندہ زندگی آسانی سے گزار سکیں اور وہ کبھی بھی افغانستان واپس نہیں آئیں گئے اور نہ ہی وہ طالبان حکومت کے خلاف کوئی محاذ قائم کرنے کی کوشش کریں گئے۔ افغان سفارتی زرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 20 سالہ امریکی قبضہ کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی تھا کیونکہ کرپٹ اشرافیہ امریکی انتظامیہ کو بیوقوف بنا کر امریکی ٹیکس دہندگان کے فنڈز دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی تھی۔ شائد کبھی بھی افغان جنگ کے دوران ضائع کیے گئے کئی بلین ڈالرز کے لیے کسی کو بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا کیونکہ اس میں سب پھنستے ہیں۔ سابق سفارتکار نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امریکی ادارہ SIGAR نے کئی بار اپنی رپورٹس میں نشاندہی کی تھی کہ افغان حکومت امریکی فنڈز کا ناجائز استعمال کر رہی ہے اور وہاں کھلے عام کرپشن ہو رہی ہے لیکن امریکی حکومتوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے رکھیں۔ افغانستان میں چھ ہزار امریکی شہریوں سمیت محکمہ دفاع کے اٹھارہ ہزار ٹھیکیدار موجود تھے، یوں لگتا ہے کہ انہوں نے بھی افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر کرپشن کی۔ لیک ہونے والی سفارتی کیبلز نے بھی افغانستان میں حکومتی بدعنوانی اور اس سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن کی ظاہری کمزوری کو بے نقاب کیا۔ سابق افغان سفارتکار کا کہنا تھا کہ ملک کی اشرافیہ کے تمام ارکان بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث تھے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اکتوبر 2009ئ میں اس وقت کے نائب صدر احمد شاہ مسعود کے چھوٹے بھائی احمد ضیائ مسعود کو دبئی میں 52 ملین ڈالر نقد لے جاتے ہوئے پوچھ گچھ کی گئی لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا ان کو جانے دیا گیا تھا یا نہیں؟ 2002ئ سے 2022ئ کے درمیان افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کی طرف سے مختص کیے گئے 146.68 بلین ڈالرز کا ایک بہت بڑا حصہ کرپشن، دھوکہ دہی اور غلط استعمال کے ذریعے ضائع کیا گیا۔ صرف اکیلے اشرف غنی 169 ملین ڈالر لیکر افغانستان سے فرار ہوئے۔ افغان سفارتی زرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سابق صدر اشرف غنی اپنے اْوپر لگنے والے الزامات کے جواب دینے کے لیئے امریکی تفتیش کاروں کے سامنے انٹرویو کے لیئے پیش نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنی قانونی ٹیم کے زریعے جواب دینے پر رضامند ہوئے۔ انہیں 56 تحریری سوالات بھیجے گئے جن میں سے انہوں نے صرف چھ کے جوابات دئیے۔ مسٹر غنی کی قانونی ٹیم نے دعویٰ کیا کہ وہ بیرون ملک جائیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والی ذاتی رقوم اور عالمی بینک کی پنشن کے ساتھ افغانستان چھوڑ گئے جسے وہ اپنے آبائی گاؤں میں ایک فاؤنڈیشن قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے جواب سے امریکی تفتیش کار مطمئن نہیں۔ زرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فراہم کردہ چوری شدہ رقم کا ایک اہم حصہ دبئی میں موجود ہے۔ افغان اشرافیہ، عہدیداروں اور ان کے عزیز و اقارب نے مبینہ طور پر دھوکہ دہی کے معاہدوں سے حاصل ہونے والے منافع کا استعمال کرتے ہوئے دبئی میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں خریدیں۔ خلیجی شہر واحد جگہ ہے جہاں جرائم پیشہ افراد اور دیگر نے کامیابی سے اپنی دولت کو لگڑری پراپرٹیز میں چھپا رکھا ہے اس کے علاوہ نیو یارک سٹی اور لندن کی رئیل اسٹیٹ نے بھی کالے دھن کو اپنی طرف راغب کیا ہے لیکن دبئی ان افراد کے لیے خاص طور پر پْرکشش مقام ہے۔