آج ہم ایسے موضوع پر بات کرینگے جو بہت سے پاکستانی والدین نہیں جانتے اور جس کا تعلق ان کے بچوں کی آنے والی نسلوں سے ہے اور ہوگا اور یہ موضوع امریکہ میں آئی ویIVYکالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلق سے تعلیمی شعبہ میں زیر بحث رہا ہے عرصے سے اور اس قانون کے تحت بڑی نامی تعلیم گاہوں نے اچھے سے اچھے طلباء کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کیا ہے جس کا نام ہے (مثبت کارروائی) اور جو عرصہ سے اچھے قابل طلبا کے لئے منفی کارروائی ثابت ہوئی ہے۔ اس کے تحت ریس کی بنیاد پر ایک کم قابل طالبعلم کو داخلہ دیا جاتا رہا ہے اور قابل طلباء کو انکار کیا جاتا رہا ہے اور یہ تعلیم گاہیں اپنے نام سے مشہور ہیں۔ آپ بھی جان لیں اور یہ آئی وی لیگ کی فہرست میں آتی ہیں جن میں ہارورڈ پہلے نمبر پر کولمبیا دوسرے نمبر پر اسکے بعد برائون، کارنیل، ایل یونیورسٹی آف پنسلوانیا، پرنسٹن اور ڈارتھ بائوتھ کالج ہیں۔ ہر سال ہائی اسکول کے بعد ٹاپ طلباء کی پسندان سے وابستہ ہوتی ہے اور اس میں داخلے کے ایک طالبعلم میں ہر طرح کی قابلیت بھرپور ہونی چاہئے جن چیزوں کو داخلے کے لئے مدنظر رکھا جاتا ہے۔ وہSAT SCORE اسکول میں کتنے فیصد مارکس ہیںGPOکتنا ہے اور کسی ایک ٹاپک پر مضمون کے علاوہ اسکول کے ٹیچرز کی سفارشی نوٹ اس طالبعلم کی مجموعی قابلیت کے بارے میں لیکن اس مثبتی قانون کے تحت سیاہ فام طلباء اور ہسپانوی نژاد کے کم قابل طلباء کو بھی لیا جاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات اور اس نظر اندازی کے تحت اچھے طلباء کی دماغی حالت پر اثر اور اثررسوخ کے ذریعے ان تعلیم گاہوں میں داخلہ دلانے والوں کی لابنگ بھی شامل ہے۔ مثلاً ایسے لوگ جو ان ہی درسگاہوں سے تعلیم لے چکے ہیں اور آفس میں اپنے تعلقات بڑھا کر ایک کمپنی بناکر اشتہار دیتے ہیں کہ آئی وی لیگ کا کالجز میں شرطیہ داخلے جس کی وہ اچھی خاصی فیس (15سے25ہزار ڈالرز) وصول کرتے ہیں اس میں اس طالبعلم کی تربیت، مضمون، دوسری تیاری اور ریسومے شامل ہوتا ہے اور اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔ کہ داخلے کی ہاں اور نہ میں شامل افراد اس طالبعلم کو منتخب کرکے قبولیت کا پیغام دے دیتے ہیں یہاں یہ بھی کہتے چلیں یہ تمام طلباء قابلیت میں ٹاپ ہوتے ہیں لیکن انہیں یا ان کے والدین کو خدشہ ہوتا ہے کہ کسی وجہ انٹرویو یا کوائف دیکھنے والا اپنی پسند یا ناپسند نہ لگا دے ہماری دو سال کی تحقیق سے ہم یہ دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ انٹرویو لینے والے پر منحصر ہے کہ وہ طالبعلم کی تمام قابلیتوں کو ایک طرف رکھ کر اپنی ذاتی انا یا ترجیح کا استعمال کرے۔ مثالیں دیتے چلیں پہلی بات تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ داخلہ کا یہ نظام پورے امریکہ میں بڑی بڑی مشہور طلباء گاہوں میں ہر لحاظ سے غلط ہے کہ طالبعلم کی تعلیمی قابلیت کو ایک طرف رکھ کر اس میں کچھ اور ڈھونڈیں، مثال کے طور پر پچھلے سال ایک سیاہ فام نائیجیرین نسل کی لڑکی نے جو بہترین ڈبیٹر تھی تمام آئی وی لیگ کالجوں کے علاوہ 7دوسرے ٹاپ کالجوں میں بھی درخواست دی اور حیرت ناک طور پر پندرہ کے پندرہ کالجوں نے اسے قبول کرلیا حالانکہ وہ صرف بولنے کی ماہر تھی۔ اور نسلی امتیاز کے تحت اُسے داخلہ دیا گیا تھا اس نے ٹاپ درسگاہ ہارورڈ کا انتخاب کیا۔ اور اسی سال ایک اور مثال سامنے آئی کہ ایک امریکی گوری لڑکی نے جو بہت قابل تھی ان ہی درسگاہوں میں درخواست دی اور ہر جگہ سے انکار ہوگیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس نظام میں اس قانون کے تحت جو قابلیت قتل ہو رہا تھا اب29جون کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بند ہو جائیگا یہ فیصلہ9میں سے6ججوں کا تھا جس پر صدر بائیڈین نے پریس کانفرنس کی اور کہاI AM STRONGLY DISAGREE WITH THISمیں اس فیصلے سے کسی بھی طرح مطمئن نہیں اور یا مجھے یہ فیصلہ منظور نہیں بائیڈین ایک لبرل صدر ہیں اور انہیں انتخاب جتوانے میں ہسپانوی اور سیاہ فام کی بڑی تعداد شامل ہے اپنے اس بیان میں انہوں نے سیاست کھیلی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایک اوسط طالبعلم رہے ہوں اور انہیں اس بات کا ادراک نہ ہو کہ کلاس میں یا اسکول میں ٹاپ کا طالبعلم بننے کے لئے کتنی بھاگ دوڑ اور راتوں کی نیندیں حرام کرنی پڑتی ہیں ہم جو میرٹ کی بات کرتے ہیں کم ازکم امریکہ میں سیاست اور داخلوں یا ملازمتوں کے معاملے میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ بائیڈین کی کابینہ میں جو لوگ شامل ہیں وہ کسی نہ کسی وسیلے سے یا بھی نسلی امتیاز کے طور پر بھرے گئے ہیں اور ہم اپنی لکھی اس بات پر قائم ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اچھے طالبعلم کی جگہ نسلی بنیاد پر جداگانہ انداز میں کم قابلیت کے طالبعلم کو داخلہ مل جائے تو وہ اپنے مریض کے لئے درد سر بن جاتا ہے اور اس کا ذاتی تجربہ کر چکے ہیں۔
ایک بات ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ کم قابلیت رکھنے والا طالبعلم کیونکر ان ٹاپ تعلیم گاہوں میں ہی جانا چاہتا ہے جب کہ امریکہ کی4ہزار سے زائد تعلیم گاہیں ہیں جو میڈیکل ، کمپیوٹر سائنس، انجینئرنگ، فلسفہ، معاشیات سیاست، فنون لطیفہ کی ڈگریاں دیتی ہیں۔ تو پھر کیوں ایسا طالبعلم ضروری سمجھتا ہے کہ وہ ہارورڈ یا برائون میں جائے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ قدم ایک چینی نژاد(ایشین امریکن) طالبعلمALEX SHIEHنے جب اسے ہارورڈ یونیورسٹی نے داخلے سے انکار کردیا وجہ بتائے بغیر اور وہ ہارورڈ اور سائوتھ کیرولینا کو سپریم کورٹ میں لے گیا اور اس نے تاریخی کامیابی حاصل کی جو دوسرے طلباء کو روشنی دکھانے کے لئے تاریخ میں لکھی جائے گی ایک بات پر ہمیں فخر اور پورا یقین ہے کہ آپ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو قانونی چارہ جوئی کریں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں بہت سی جگہوں پر داخلوں، یا ملازمتوں کے علاوہ دوسری طرح کے انسان حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور ہر جگہ فیڈرل، اسٹیٹ اور سٹی گورنمنٹ نے آفس کھولے ہوئے ہیں جہاں جاکر شکایت درج کرا سکتے ہیں اور اس ضمن میں ہم اس چینی نژاد الیکس مثیاہ کو مبارکباد دینگے خیال رہے اس مثبتی کارروائی کے تحت داخلے میں ترجیحہ صرف دو قسم کی نسلوں کو تھی۔ افریقن امریکن اور ہسپانوی نژاد لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یہ میرٹ پر داخلے کی وجہ ہوگی اور اپنے اپنے طور پر کالج یا یونیورسٹیز کو اختیار ہوگا کہ وہ جیسے چاہے داخلہ دے نسلی بنیاد پر اور اس کے ساتھ ہی قابل طلباء اپنی اپنی منزل پا سکینگے۔ اس سے پہلے کوئی سات سال ہوئے ایک گوری امریکی لڑکی بھی سپریم کورٹ اسی مثبت کارروائی کے قانون کو چیلنج کرچکی ہے لیکن وہ ناکام رہی تھی یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ داخلے کے خواہشمند طلباء کو انٹرویو اسی کالج یا یونیورسٹی کا دوسرے یا تیسرے سال کا طالبعلم لے رہا ہوتا ہے۔ جس کا پرکھنے کا تجربہ زیرو ہوگا اور وہ اپنی ذاتی ترجیح کو اہیمت دے گا لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن جگہ کم ہے ہم ایسے کالم لکھتے رہیں گے جن کا تعلق آپ سے ہو۔
٭٭٭٭٭