کستان میں انسانی حقوق سوالیہ نشان بن گئے!!!

0
79

پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی سطح پر نمایاں ہو رہی ہیں، سیاسی انتقامی کارروائیوں کے علاوہ بھی ملک بھر میں جبری گمشدگیاں ہمارے قوانین اور سیکیورٹی اداروں کو منہ چڑھا رہی ہیں ، اس وقت پاکستانی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، لوگ اپنے پیاروں کی تصاویر ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں، چوراہوں، عدالتوں اور حکومتی دفاتر کے باہر کھڑے حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی داد رسی نہیں ہو رہی ہے ۔ لاپتا افراد سے متعلق قائم کمیشن کے پاس رواں برس جنوری سے جون تک جبری گمشدگی کے 533 نئے کیسز درج کرائے گئے ہیں۔ملک میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی کمیشن کے مطابق رواں سال مارچ میں لاپتا افراد کے سب سے زیادہ 141 نئے کیسز درج ہوئے۔کمیشن کے مطابق جنوری میں 91، فروری میں 99 اور اپریل میں 91 لاپتا افراد کے نئے کیسز درج ہوئے۔رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں 82 جبکہ جون کے مہینے میں 29 کیسز درج ہوئے۔ رواں سال جون میں 59 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے جبکہ لاپتا افراد کے کْل 9 ہزار 736 کیسز کمیشن کے پاس درج ہو چکے ہیں اور کمیشن نے اب تک 7 ہزار 439 کیسز کو نمٹایا ہے، 2 ہزار 297 لاپتا افراد کے کیسز پر کام جاری ہے ،واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اس وقت کے آئی جی خیبرپختونخوا پر مشتمل 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔کمیشن کے سربراہ اب بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال ہی ہیں جبکہ اراکین میں جسٹس (ر) فضل الرحمٰن، ریٹائرڈ آئی جی کے پی محمد شریف ورک اور جسٹس (ر) ضیا پرویز شامل ہیں۔ جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا،وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔اس سے قبل جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب 2021 میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل تاریخی قرار دیتے ہوئے سراہے جانے کے بعد تاحال التوا کا شکار ہے کیونکہ مجوزہ قانون کو جن قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے ،اس سے نکلنے کے بارے میں آئین خاموش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام مزید کتنے عرصہ تک ایسے ہی اپنے پیاروں کی منتظر رہیں گی ، حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کلیدی کردار ادا کرے، ایک آزاد ریاست کے شہری اپنے ہی ملک میں لاپتہ ہیں، جن کو سیکیورٹی اداروں نے روپوش کر دیا ہے ، کیا پاکستان میں جنگل کا قانون ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق معاملات کو چلایا جا رہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے مسائل حل کرنے کے لیے آنکھیں کھولیں اور ہوش سے کام لیں کیونکہ اگر انھوں نے اس طرف توجہ مبذول نہ کی تو ان کی کسی بھی فورم پر کوئی شنوائی نہیں ہوگی ، خدا را الیکشن میں ایسے حکمرانوں کو آگے لائیں جو عوامی مسائل کے حل کی بات کرے، لاپتہ افراد کی بازیابی پر بات کرے، جرائم کو کم کرنے پر بات کرے، غربت ، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے پلان پیش کرنے والوں کو اسمبلی میں لائیں ، عوام کو چاہئے کہ وہ انتقامی سیاست پر بات کرنے والے سیاستدانوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیں ، ہم ملک کو مزید مسائل سے دوچارنہیں کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here