واشنگٹن(پاکستان نیوز) امریکہ کے شہریوں میں جمہوریت مخالف سوچ تیزی سے پروان چڑھنے لگی ہے ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی بڑی تعداد اب بھی جمہوری نظام سے مطمئن نہیں ہے ان کی رائے میں گزشتہ الیکشن کو چوری کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ سیاسی انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں ، پبلک ریلیجن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کیے گئے سروے میںسفید فام لوگوں کی اکثریت جمہوری نظام کی مخالف نظر آئی ہے۔ حالیہ اور گذشتہ انتخابات میں امیگرنٹس ، اقلیتوں کے نمائندوںاور خاص طور پر سیاہ فام افراد پہلے کی نسبت سیاسی دھارے میں تیزی سے نہ صرف داخل ہوئے بلکہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتے نظر آئے۔ امریکہ کی تمام ریاستوں میں ہونیوالے انتخابات چاہے وہ صدارتی سطح پر ہوں، ریاستی سطح پر یا پھر شہری انتظامیہ کی سطح پر ہوں، امیگرنٹس اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد سیاسی دھارے میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سفید فام نمائندے بھی اب امیگرنٹس اور اقلیتی ووٹس کے بغیر الیکشن جیتنے سے قاصر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں منارٹی ووٹس کی جانب خاص توجہ مبذول کروائے رکھی ۔ حالیہ الیکشنز میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جن امیدواروں نے اقلیتی رہنماؤں اور نمائندوں کے ساتھ مل کر اپنی انتخابی مہم چلائی وہ آسانی سے کامیابی سے ہمکنار ہو گئے جبکہ دیگر امیدوار جنہوں نے صرف اور صرف سفید فام ووٹ پر انحصار کیا انہیں شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ سروے رپورٹ میں ایک نہایت ہی اہم پہلو کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ انتخابات میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز کرنا کسی بھی امیدوار کیلئے ناقابل برداشت نقصان ثابت ہو سکتا ہے ۔ لوگوں میں اس حوالے سے گہری تقسیم پائی جاتی ہے کچھ لوگ فوکس نیوز پر اعتماد کرتے ہوئے اسے معتبر چینل تصور کرتے ہیں تو کچھ لوگ ون امریکہ نیٹ ورک اور نیوز میکس کی رپورٹنگ کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں ، سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر دس میں سے تین شہری یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور اس کو غیر قانونی ہتھکنڈوں سے چوری کیا گیا ، ملکی جمہوری نظام سے غیر مطمئن افراد کی 82 فیصد تعداد فوکس نیوز کی پیروی کر رہی ہے جبکہ وہ افراد جو ملک کے جمہوری اداروں کو مضبوط تصور کرتے ہیں جن کے مطابق 2020 کا الیکشن قانونی اور قواعد کے عین مطابق تھا سروے کے دوران 97 فیصد لوگ ون امریکہ نیٹ ورک اور نیوز میکس کی رپورٹنگ کو درست قرار دیتے رہے ۔ ون امریکہ نیٹ ورک اور نیوز میکس جیسے انتہائی دائیں بازو کے چینلز پر بھروسہ کرنے والوں میں سے 97 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات پر یقین رکھتے ہیں جس پر ٹرمپ کی اپنی سائبر سیکیورٹی اور الیکشن سیکیورٹی حکام نے بھی اتفاق کیا تھا۔سروے کے دوران ہر پانچ میں سے ایک شہری نے بتایا کہ سازش کے بنیادی اصول پر یقین رکھتا ہے اور امریکہ میں اس حوالے سے جلد سیاسی طوفان آنے والا ہے جبکہ سروے کے دوران ہر چھ میں سے ایک شہری حکومت سے غیرمطمئن نظر آیا۔ سروے کے دوران 18 فیصد افراد کا کہناتھا کہ وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکہ اس حد تک آگے نکل گیا ہے کہ سچے امریکی محب وطن لوگوں کو اپنے ملک کو بچانے کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔سروے میں 30 فیصد ریپبلکن نے اپنے موقف کو تسلیم کروانے کے لیے تشدد کو اپنانے کی رائے دی، سروے کے دوران 17 فیصد آزاد اور 11 فیصد ڈیموکریٹس افراد نے اپنے موقف کو تسلیم کرانے کیلئے تشدد کی راہ اپنانے کا اظہار کیا۔ سروے کروانے والے پبلک ریلیجن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو رابرٹ جونز نے بتایا کہ سروے کے دوران سامنے آنے والے حقائق بہت پریشان کن ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عوام کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔سیاسی تشدد کی لہر پورے ملک میں پھیلتے ہوئے کمرہ عدالتوں تک پہنچ گئی ہے ۔ 6 جنوری کی بغاوت کے تحت کیپیٹل ہل میں فساد بپا کرنے والے آج عدالتی کارروائیاں بھگت رہے ہیں اوران کے لیے جیل کی سزائیں ہیں۔ تشدد کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ،مشی گن کے گورنر کو اغوا کرنے کی سازش کرنے والے ایک شخص کو اگست میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جمعرات کو، ایک نو نازی گروپ کے دو ارکان کو رچمنڈ، وا میں گن کنٹرول کے حامیوں کی ایک ریلی پر حملہ کرنے کے منصوبے پر نو سال قید کی سزا سنائی گئی۔فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے حالیہ برسوں میں رپورٹ کیا ہے کہ سفید فام بالادستی ریاست امریکہ کے تحفظ اور سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ بن گئی ہے۔جونز نے کہا کہ ریپبلکنز اور قدامت پسندوں کا بڑھتا ہوا حصہ جھوٹے اور پرتشدد بیانات کو تسلیم کرتا ہے، سروے کے دوران 29 فیصد ریپبلکنز نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ 1950 کی دہائی کی زندگی موجودہ دور سے بہت بہتر تھی،رائے شماری میں ریپبلکن ووٹروں کو ڈیموکریٹس کے مقابلے میں زیادہ متحرک پایا گیا،سروے کے دوران دس میں سے نو ریپبلکن یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک امریکی ہونے کے لیے مذہبی یا قوم پرست خصوصیات اہم ہیں لیکن صرف دو تہائی ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ انگریزی بولنا امریکی شناخت کے لیے اہم ہے، تقریباً دو تہائی ریپبلیکنز نے کہا کہ امریکہ میں پیدا ہونا اور عیسائی ہونا دونوں ہی غلط ہیں۔