مرکزی کابینہ کی تشکیل! !!

0
129

مرکز میں کابینہ کی تشکیل ہوگئی حسب توقع پاکستان پیپلزپارٹی نے کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ البتہ نگران کابینہ کو بھی مرکزی کابینہ میں نمائندگی دیکر منفی قوتوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ دلی دور است حیرت کی بات یہ ہے کہ346ممبران قومی اسمبلی اور ایک سو سینٹرز کے باوجود غیر منتخب لوگوں کو کابینہ میں لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے کئی تجربہ کار لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن انہیں نظر انداز کرکے ٹیکنوکریٹس کو کابینہ میں شامل کرنا ایک بار پھر ”ووٹ کو عزت نہیں دیگئی ہے” کیا ماہ ووٹر جنہوں نے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیا ہے کیا ہے اس ووٹر کی توہین نہیں؟ بہرحال پچھلے دنوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد محسوس یہ ہوتا ہے کہ بداعتمادی کی فضا ابھی تک قائم ہے۔ پہلے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی عدم شمولیت پرچمہ گویاں ہو رہی تھیں اب پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی مرکزی کابینہ میں شمولیت پر سوال اٹھنا بھی منطقی نظر آرہا ہے۔ ادھر عمران خان بھی جیل میں بیٹھ کر بھی اپنی شرارت سے باز ن ہیں آرہے لطیف کھوسہ کے ذریعے احتجاج کر رہے ہیں لطیف کھوسہ بزرگ آدمی ہیں اور ایک نامی گرامی وکیل ہیں وہ تو عمران خان کے وکیل تھے اب انکے ممبر پارلیمنٹ بھی ہوگئے ہیں۔ اور جو شخص دوسروں کو جیل سے نکلوانے کے کام پر معمور تھے انہیں خود بھی جیل کی ہوا کھانی پڑ گئی۔ لوگ(عوام) حیران ہے کہ آخر عمران خان کے پاس کونسی گدڑ سنگھی ہے کہ انکی بات کوئی ٹالتا نہیں اب تو دوسروں کو بھی”مرشد” کے کرامات پر یقین ہونے لگا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اقتدار کے متلاشی لوگوں کی بنی گالہ کے درختوں میں سے اقتدار کی خوشبو آرہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی پشت پر کچھ طاقتور حکومتیں یا ممالک ہیں جسکی وجہ سے ان سے رعایت برتی جارہی ہے۔ لیکن احتجاجی مہم کے بڑھنے سے پاکستان جو ا یک ایٹمی وقت ہے اسکی ساکھ خراب ہونے کا تاثر پیدا ہوسکتا ہے۔ بظاہر تو تحریک انصاف ایک ”ون مین شو”ONE MAN SHOWلگتی ہے لیکن اندر کی بات کوئی نہیں جانتا ماسواء ان لوگوں کے جو اندر ہیں۔ بہرحال آصف زرداری صاحب کی خوش نصیبی ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے سیاستدان ہیں جو جمہوری حکومتوں کے دور میں دو مرتبہ صدارتی عہدے پر منتخب ہوئے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ حال ہی میں صدر آصف زرداری کے بھیجے ہوئے ایک ریفرنس پر جوکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل سے متعلق تھا سپریم کورٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس مقدمہ میں بھٹو شہید کو انصاف نہیں ملا جسے عدالتی زبان میںFAIR TRAILکہا جاتا ہے قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9رکنی عدالتی فیصلہ متفقہ تھا۔ جوکہ نہ صرف انصاف کی فتح ہے۔ لیکن ساتھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بھی جیت ہے جوکہ1979ء سے کہتی آئی ہے۔ کہ یہ ایک عدالتی قتل تھا اور جہوریت کاقتل تھا بھٹو کا سایہ آج بھی پاکستان کی سیاست پر بھرپور طور پر موجود ہے۔ جن لوگوں نے بھٹو کے نام کو مٹانے کی کوششیں کیں وہ خود آج بھلا دیئے گئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو اپنی خواہش کے مطابق آج بھی تاریخ میں بھرپور انداز سے زندہ و جاوداں ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے وہ سینکڑوں ہزاروں کارکن جنہیں کوڑے مارے گئے قیدوبند میں رہے اور کئی شہید کردیئے گئے یہ ان سب کی فتح ہے۔ اب یہ فرض بنتا ہے بلاول بھٹو چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہ وہ اپنی جماعت پر عائد کئے جانے والے الزامات جن میں بدعنوانی کے الزامات شامل ہیں ان الزامات کی پارٹی میں تحقیقات کرائیں اور جن پارٹی قائدین پر اسے الزامات ثابت ہوں انہیں کیفر کردار کریں تاکہ عوام کو ریلیف ملے کیونکہ اگر یہی بدعنوان عناصر اگر پارٹی میں موجود رہے تو عوام کا صبر جواب دے جائیگا۔ عوام دل سے چاہتی ہے کہ چیئرمین بلاول اپنے نانا کی طرح انہیں کے نقش قدم پر چل کر عوام کے دلوں نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب، سرحد یا پختونخواہ اور بلوچستان کی عوام کو ریلیف دیکر وزیراعظم پاکستان بنیں اور پاکستان کو اچھی قیادت کے قحط الرجا سے آزاد کریں پھر ایک بار پھر پنجاب کی عوام نعرے لگائے کہ بھٹو کے نعرے وجن گے!!!! ۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here