ارادہ تو ہمارا یہی تھا کہ پاکستانی سیاست کے اُتار چڑھائو پر ہی کچھ لکھیں جہاں 26 ویں ترمیم کے نفاذ اور نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے باوجود فارم 47 کی حکومت اپنے مقاصد کے حصول میںنہ صرف ناکام نظر آتی ہے اور مقتدرہ کی سپورٹ کے باوجود تنائو و گھبراہٹ کا شکار نظر آتی ہے، تاہم فیصلہ یہ کیا کہ امریکی شہری ہونے کے ناطے صدارتی و عمومی انتخابات کا بھی کچھ ذکر ہو جائے۔ ہمیشہ کی طرح 5نومبر کو بھی انتخابی معرکہ ڈیمو کریٹس اور ریپبلیکنز کے درمیان ہی ہے۔ ڈیمو کریٹ صدارتی امیدوار جنوبی ایشیائی نژاد کملا ہیرس ہے جبکہ ریپبلیکن کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی دوڑ میں ہے جس نے 2016ء میں پاپولر ووٹ کی بنیاد پر ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر صدارت حاصل کی تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مذکورہ 2024ء کے انتخابات کیلئے ابتداء میں موجودہ صدر جوبائیڈن امیدوار تھے لیکن پہلے مباحثے میں ٹرمپ کے مقابلے میں کمزور پڑنے کے بعد نائب صدر کملا ہیرس کو امیدار نامزڈ کر دیا گیا اور اب مقابلہ ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان ہے۔ ہماری ان سطور کے وقت الیکشن ڈے میں 8 دن رہ گئے ہیں، البتہ یو ایس انتخابی طریقہ کار کے مطابق پیشگی (ارلی) ووٹنگ اور بذریعہ ڈاک(میل) ووٹنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے اور اب تک تقریباً 45 لاکھ سے زائد ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔امریکی روایات کے مطابق دونوں جماعتوںمیں منقسم ریاستوں میں ووٹنگ کا رجحان حسب سابق ڈیمو کریٹ اور ریپبلکن کے حامی نقطۂ نظر سے ہی سامنے آرہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مقابلہ نیک ٹو نیک ہی ہے تاہم مبینہ طور پر ڈیمو کریٹس کا پلہ بھاری لگ رہا ہے۔ ارلی اور میل ووٹس کا 42 فیصد ہیرس اور 40 فیصد ٹرمپ کے حق میں ظاہر ہوا ہے۔ ہر امریکی اس حقیقت سے واقف ہے کہ امریکی انتخابات میں صدر کی کامیابی کا دارومدار عوام کے عمومی ووٹوں کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ تمام ریاستوں کے متعینہ پاپولر ووٹس پر ہوتا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی حامی ریاستوں کے علاوہ بعض ریاستوں کا نقطہ نظر ملکی خصوصاً ریاستی حالات، بین الجہتی و نسلی آبادی، عوامی مسائل و ضروریات کی بناء پر ووٹ دینا ہوتا ہے۔ ایسی ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کے طور پر شمار کیا جاتا ہے اور متعلقہ امیدوار ان ریاستوں سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہر وہ حربہ و استدلال اپناتے ہیں جو عوام کی حمایت کا سبب بنیں اور ان ریاستوں سے انہیں ووٹ مل سکیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہیرس نے اسقاط حمل پر ٹرمپ کی پابندی کو بنیاد بنا کر اپنی کمپین چلانے کیساتھ، سیاہ فام اور لاطینی کمیونٹیز کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن ریاست الی نائے میں جو ڈیمو کریٹس کی کنفرم ریاست ہے فلسطین اسرائیل ایشو پر مسلم اُمہ کی رائے اس کے ووٹس کو متاثر کر سکتی ہے، دوسری طرف ٹرمپ کا 2025ء کا ایجنڈا رائے دہندگان کیلئے عمومی طور پر قابل قبول نظر نہیں آتا البتہ مشی گن میں اپنے خطاب میں اس کا یو کرین اور اسرائیل فلسطین و ایران تنازعہ ختم کرانے کا دعویٰ اس کے حق میں جاتا لگتا ہے۔ فی الوقت صورتحال بین بین ہی نظر آتی ہے مقابلہ سخت ہے تاہم اگر کملا ہیرس کو کامیابی ملتی ہے تو یہ امریکہ کی نئی تاریخ بنے گی کہ کوئی خاتون امریکی صدر ہوگی۔
امریکی الیکشن کے نتائج تو بہر حال 5نومبر کے بعد آ ہی جائیں گے اور حسب سابق اقتدار کامیاب جماعت کو منتقل ہو جائیگا لیکن پاکستانی سیاست کا ہنگام یونہی جاری و ساری رہتا نظر آتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت اور مقبول ترین قائد کیساتھ جبر و استبداد اور نا انصافی کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا حالانکہ مقتدرہ و غیر عوامی حکومت کے غیر جمہوری و ظالمانہ اقدامات کیخلاف بیرونی ممالک کے نمائندگان بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی قراردادیں اور آوازیں بانی تحریک انصاف کے حق میں، غیر جمہوری رویوں کیخلاف بلند ہو رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسپین میں پاکستانیوں کے احتجاج کیساتھ، انگلستان کے اراکین پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد ارکان امریکی کانگریس کا بانی پی ٹی آئی پر قید و بند، مظالم اور غیر انسانی اقدامات کے حوالے سے خط امریکی صدر کو موصول ہوا ہے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے لیکن کیا عمران سے ذاتی دشمنی رکھنے والے زور داروں پر اس کا کوئی اثر ہوگا، 26ویں ترمیم کے بعد 27ویں ترمیم کا تماشہ محض اس لئے ہے کہ کسی بھی طرح عمران کو ملٹری کورٹس میں لا کر اس کا سیاسی کیرئیر ختم بلکہ خاکم بدھن اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اختیار و اقتدار صرف مقتدرہ کے پاس ہی ہے، ریاست کے تمام ادارے بشمول عدلیہ محض نام اور دکھاوے کیلئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی آزادی، عوام کا اختیار حتیٰ کہ حکومت اور سیاست سب ہی مقتدرین کے زیر نگیں ہیں۔ پینٹا گون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ساری قومی و بین الاقوامی پالیسیاں اس کی ہی ہوتی ہیں لیکن اپنے 45 سالہ قیام کے دوران امریکہ میں یہ نہیں دیکھا کہ سیاسی تفریق و انتخابی مراحل میں پینٹا گون نے کوئی دخل اندازی کی ہو اور اپنے فیصلے مسلط کئے ہوں۔ دُور کیوں جائیں پڑوسی ملک کی تاریخ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ فوجی قیادت کو کبھی اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے کی ہمت ہوئی ہو۔ پاکستان غالباً وہ واحد جمہوری ملک ہے جو آئین، قوانین و جمہوریت کے دعوئوں کے باوجود مقتدرین کے ہاتھوں محض ایک تماشہ ہی ہے اور شاید آئندہ بھی اس کا مقدر یونہی رہے، یہاں جبر اور فسطائیت کا ہی قبضہ رہے گا۔
٭٭٭