ججوں کے خلاف عوامی ردعمل !!!

0
17
رمضان رانا
رمضان رانا

پاک امریکن وکلاء برائے حقوق کے زیراہتمام گزشتہ کئی سالوں سے مختلف موضوعات پر درجنوں سیمینار، کانفرنسیں اور جلسے وجلوس منعقد ہوئے جن سے پاکستان کے لاتعداد ججوں قانون دانوں اور قانونی تجزیہ نگاروں نے خطاب کیا ہے جس میں سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری جسٹس وحید الدین، جسٹس خلیل رمدے، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس مقبول باقر، جسٹس غوث محمد، جسٹس رانا شمیم، جسٹس آفتاب علوی، جسٹس نجفی کے علاوہ پاکستان کے مشہور وکلاء قیادت۔ علی احمد کرد، اعتزاز احسن، حامد خان، منیر اے ملک، رانا ضیا الرحمان، امان اللہ کزائی، رانا سرور، یاسین آزاد، بابر مرتضٰے خان، راجہ مسقط نواز خان، شمیم ملک، محمد عاقل، قاضی بشیر اور دوسرے وکلاء نے خطاب کیا جس میں پاکستان میں آئین اور قانونی کی بالاتری اور بالادستی کا ذکر ہوتا رہا ہے جس کا سلسلہ ٹاپ چلا جب پاکستان میں ایک غیر قانونی اور غیر آئینی حکمران جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پہلے برطرف کیا جن کو سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا جس کے بعد جنرل مشرف نے دوبارہ چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت پوری عدلیہ برطرف کردی تھی جس کیخلاف پاکستان اور پاکستان سے باہر وکلاء تحریک نے جنم لیا جو پوری دنیا میں پھیل گئی جس کے دبائو میں آکر عدلیہ کو باعزت طور پر بحال کیا گیاتھا۔ جس کا مقصد اور مطلب بیان یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے ہمیشہ ہمارے پروگراموں کی حمایت کی ہے آج جب میں نے پڑھا کہ سپریم کورٹ کے ایک متنازعہ جج اطہرمن اللہ کے خلاف سیاسی پارٹیوں کے کارکن احتجاج کر رہے ہیں کہ جن کی ہمدردیاں ا یک مخصوص سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستہ میں جنہوں نے عدالت میں باقاعدہ ایک سیاسی پارٹی کی حمایت کی جس کی وجہ سے انہیں ایک غیر قانونی اور غیر آئینی عدالتی فیصلہ دینا پڑا تو مجھ جیسے انصاف پسند شخص جس نے ساری زندگی پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی خاطر جدوجہد کی جس کی یاداش میں ہر قسم کی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ آج ججوں کے خلاف عوامی احتجاج ہو رہا ہے جوکہ مناسب نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر کی عدالت واحد ادارہ ہوتا ہے جو پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی طرح ایک حکومتی ادارہ کہلاتا ہے مگر وہ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے جو کبھی جانبداری اختیار نہیں کرتا ہے اگر وہ جانبداری اختیار کرے گا تو وہ قاضی یا جج نہیں کہلائے گا۔ ماضی میں جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کے خلاف کھلم کھلا اپنے بیانوں سے جانبداری اپنائی تھی جس کے نتائج بھیانک نکلے کہ بھٹو کو پھانسی ہوگئی۔ جس کو آج عدلیہ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ بھٹو کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی لہذا ججوں کو عدالت میں سوچ سمجھ کر بیانات جاری کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اہم عہدے کا خیال رکھیں جو نہیں ہو رہا کہ پاکستان کی عدلیہ جسٹس میئر کے بعد جنرلوں کی ماتحت اور حمایت یافتہ ہوگئی جس کے ماضی میں جنرلوں کی ناجائز حکومتوں کو جائز قرار دیا آج وہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس بندیال کی مکمل طور پر اپنی جانبداری کی وجہ سے متنازعہ بن چکی ہے جن کے خلاف عوام عوامی احتجاج کرتے نظرآرہے ہیں جس کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عدلیہ دنیا کی بدنام زمانے عدلیہ بن چکی ہے جن کے فیصلوں کو عوام ردی کی ٹوکریوں میں پھینک رہے ہیں۔ بہرحال سیاست میں مخالفت ہرشخص کا حق ہے مگر ججوں کی جانبداری کی وجہ سے ججوں کے خلاف احتجاج ایک لمحہ فکریہ نظرآرہا ہے۔ جو گالی گلوچ میں تبدیل ہوچکا ہے فرق صرف یہ ہے کہ کبھی تحریک انصاف ججوں کو لندن کی گلی کوچوں میں ڈھونڈ کر رسوا کرتی نظرآتی ہے۔ آج دوسری پارٹیاں نیویارک میں متنازعہ جج اطہر من اللہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو کسی بھی عدلیہ کے لئے اچھا عمل نہیں ہے مگر ججوں کی یہ کرداریوں اور بداعمالیوں سے عوام تنگ آچکے ہیں جو مرتا کیا نہ کرتا کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here