سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد الیکشن کمشن کا راست اقدام

0
36

الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ بد قسمتی سے نا صرف ماضی میں الیکشن کمشن پر منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کروانے میں ناکامی کے الزامات لگتے رہے ہیں بلکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ الیکشن کمشن 2024 کے انتخابات میں اپنی بنیادی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمشن نے خصوصی نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کافیصلہ کیا ہے اور الیکشن کمشن کی قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ اس حوالے سے کسی قسم کا ابہام یا مشکل ہوتو فوری طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اس تاثر کو یکسر مسترد کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کیونکہ اس بارسپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمشن کے اقدامات پر سوال اٹھا دئیے ہیں کہ الیکشن کمشن نے عدالت عظمی کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی جماعت کو نااہل قرار دینے کیلئے نہیں تھا، عدالتی فیصلے کی غلط تشریح سے بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر ووٹرز کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا۔8 فروری کے انتخابات سے قبل، دوران اور بعد میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے کئی شکایات سامنے آئیں۔مخصوص نشستوں کا کیس بھی صرف نشستوں کا نہیں بلکہ اصل سٹیک ہولڈرز یعنی عوام کے بنیادی آئینی حقوق کا کیس ہے ، کیا الیکشن کمیشن مطمئن کر سکتا ہے کہ عام انتخابات میں اس نے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع دے کر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی ؟مخصوص نشستوں کا فیصلہ اکیلے میں محض تکنیکی نکتے نکال کر نہیں کیا جاسکتا۔ معزز جج کا اضافی نوٹ الیکشن کمشن پر بعض حلقوں کی تنقید کی تائید کرتا ہے کہ الیکشن کمشن نے جس طرح تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کیا اور اس کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرنے میں رکاوٹیں حائل کیں۔ دوسرے الیکشن کمشن تحریک انصاف کے امیدواروں کو لیول پلینگ فیلڈ بھی فراہم کرنے میں ناکام رہا مزید یہ کہ پولنگ کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان روایت کے مطابق آر اوز کے بجائے نہ صرف الیکشن کمشن نے خود کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر بھی کی جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی انتخابات کے نتائج پر سوالات اٹھانے کا موقع ملا۔ شاید ملکی تاریخ کے یہ پہلے انتخابات تھے جن کے نتائج کو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکمران اتحاد نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ رہی سہی کسرالیکشن کمشن کے قومی اور صوبائی اسمبلیوںکی مخصوص نشستیں سے تحریک انصاف کو محروم کرنے کے لئے آئین کی روح کے برعکس باقی پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کر نے کے فیصلے نے نکال دی ۔ الیکشن کمشن کے انہی غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے اپوزیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے الیکشن کمشن کے اس اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ الیکشن کمشن کے ان اقدامات سے انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا اور غیر ممالک میں بھی اس کی باز گشت سنائی دی۔ اب الیکشن کمشن نے واضح فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا خوش آئند ہے لیکن ابہام کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے اعلان سے بعض حلقوں کی طرف سے مکرر اس خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد عملدرآمد میں تاخیر ہے جس سے حکومتی ارکان کو معاملہ ایک بار پھر عدالتوں میں لٹکانے کا موقع مل سکتا ہے۔ بہتر ہو گا الیکشن کمشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق فوری عملدرآمد کو یقینی بنائے اور تکنیکی جواز تلاشنے کے بجائے قانون اور انصاف پر مبنی ایسے فیصلے کرے جو تمام حلقوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ ایسا کرنے سے الیکشن کمشن پر جانبداری کا تاثر نہ صرف زائل ہوگا بلکہ اس کی غیر جانبدارانہ ساکھ بحال کرنے میں مدد مل سکے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین اور قانون پر مبنی فیصلوںسے ہی نہ صرف ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے بلکہ غیر ملکی ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہو گا الیکشن کمشن اپنے دائرہ کار کے مطابق اپنے فرائض انجام دے اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں تکنیکی نکتہ چینی اور قانونی موشگافیوں کا سہارالینے کے بجائے آئین اور قانون کی روح کے مطابق فیصلے کرے تاکہ ملک میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ اورسیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو اور ملک آگے بڑھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ نے بھی پاکستان میں سیاسی انتشار ، الیکشن کے نتائج اور الیکشن کمشن کے اقدامات پر غیر ملکی حکومتوں اور اداروں کی تنقید کے حوالے سے پوری دنیا کو درست باور کروایا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دنیا پر واضح ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کی عدالتیں انصاف فراہم کرنے اور سیاسی انتشار کو اپنے فیصلوں کے ذریعے ہم آہنگی میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here