10 ستمبر 1974 کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی: آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتوی دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطع تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔ ۔ فروری 1987 میں ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکی سینٹ کے ارکان کو ایک چٹھی لکھی کہ آپ پاکستان پر دبا ڈالیں اور اقتصادی امداد مشروط طور پر دیں تاکہ ہمارے خلاف کیے گئے اقدامات حکومت پاکستان واپس لے لے۔ 30 اپریل 1984 کو قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی آرڈیننس مجریہ 1984 کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے بھاگ کر لندن چلے گئے۔ رات کو لندن میں انھوں نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ بیت الفضل سے ملحقہ محمود ہال میں غصہ سے بھرپور جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالسلام مرزا طاہر کے سامنے صف اول میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا طاہر احمد نے اپنے خطاب میں صدارتی آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984 (جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ احمدیوں کی بددعا سے عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مزید برآں انھوں نے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام اقتصادی امداد بند کر دیں۔اپنے خطاب کے آخر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صرف آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ آپ سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔ فرزند احمدیت ڈاکٹر عبدالسلام نے اسے اپنی سعادت سمجھا اور ملاقات کے لیے حاضر ہو گئے۔ اس ملاقات میں مرزا طاہر احمد نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ہدایت کی کہ وہ صدر ضیا الحق سے ملاقات کریں اور انھیں آرڈیننس واپس لینے کے لیے کہیں۔ لہذا ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل محمد ضیا الحق سے پریذیڈنٹ ہائوس میں ملاقات کی اور انھیں جماعت احمدیہ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیا الحق نے بڑے تحمل اور توجہ سے انھیں سنا۔ جواب میں صدر ضیا الحق اٹھے اور الماری سے قادیانی قرآن تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات اٹھا لائے اور کہا کہ یہ آپ کا قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی آیات میں تحریف کی ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس صفحہ پر مندرجہ ذیل آیت درج تھی: انا انزلنا قریبا من القادیان ترجمہ: (اے مرزا قادیانی) یقینا ہم نے قرآن کو قادیان (گورداسپور بھارت) کے قریب نازل کیا۔ (نعوذ باللہ) (تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات طبع چہارم ص 59 از مرزا قادیانی) اور مزید لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔
٭٭٭(جاری ہے)
ضیا الحق نے کہا کہ یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ کھسیانے ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔
یہ بات اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کے معروف یہودی سائنس دان یوول نیمان کے ڈاکٹر عبدالسلام سے دیرینہ تعلقات ہیں ۔ یہ وہی یوول نیمان ہیں جن کی سفارش پر تل ابیب کے میئر نے وہاں کے نیشنل میوزیم میں ڈاکٹر عبدالسلام کا مجسمہ یادگار کے طور پر رکھا۔ معتبر ذرائع کے مطابق بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے اسی یہودی سائنس دان کے مشورے سے کیے جو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یوول نیمان امریکہ میں بیٹھ کر براہ راست اسرائیل کی مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ اسرائیل کے لیے پہلا اٹیم بم بنانے کا اعزاز بھی اسی شخص کو حاصل ہے۔ پاکستان اس کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارت کے کئی خفیہ دورے بھی کر چکا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکی کانگریس کی بہت بڑی لابی اس وقت یوول نیمان کے لیے نوبیل پرائز کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد امت مسلمہ کو نقصان پہنچانا ہے اور وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے ہر وقت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی سازش میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل کے شعبہ فزکس کا سربراہ بھی ہے۔ اس سے پہلے یہ شخص اسرائیل کا وزیر تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی بھی رہا۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر اس کی خاص نظر ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان ان کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عبد السلام کے پاکستان دشمن بھارتی لیڈر نہرو کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دفعہ نہرو نے ڈاکٹر عبدالسلام کو آفر کی تھی کہ آپ انڈیا آ جائیں، ہم آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق ادارہ بنا کر دیں گے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں اٹلی کی حکومت سے وعدہ کر چکے ہیں لہذا میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے سائنس دانوں سے تعاون کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بھارتی خدمات کے عوض ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نئی دہلی اور انڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور کے منتخب رکن رہے۔ گورونانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت) ، نہرو یورنیورسٹی بنارس (بھارت) ، پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (بھارت) نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگریاں دیں۔ کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں سر دیو پرشاد سردادھیکاری گولڈ میڈل اور انڈیشن فزکس ایسوسی ایشن نے شری آرڈی برلا ایوارڈ دیا۔
بھارتی صحافی جگجیت سنگھ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام کے ذاتی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام جب بھی بھارت جاتے، جگجیت سنگھ ٹائمز آف انڈیا میں ان پر بھر پور فیچر شائع کرتے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام پر Abdulsalam a Biography (سن اشاعت 1992ئ) کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا ایک باب The Ahmaddiya Jammat ہے جس میں جگجیت سنگھ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے والے 7ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ اور 1984 کے صدارتی آرڈنینس جس کے تحت قادیانی شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتے، کی سخت مذمت کی اور قادیانیوں کو مظلوم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اقدامات کو حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک اور بے تکلف دوست جے سی پولنگ ہارو (J.C.Polking Horue) جو کیمبرج میں سلام کے شاگرد تھے اور بعد میں کیتھولک بشپ بن گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی درخواست پر ہر سال قادیانی جماعت کے سالانہ جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ یاد رہے یہ وہی پولنگ ہارو ہیں جو پاکستان میں قانون توہین رسالت 295/C کے خلاف امریکہ میں عیسائی جلوسوں کی قیادت کرتے ہیں۔ جن میں قادیانیوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہوتی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے جولائی 1994 میں بیت الفضل لندن میں توہین رسالت کی سزا کے خلاف تقریر کی تو مسٹر پولنگ ہارو اپنے کئی بشپ دوستوں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔
ڈاکٹر عبدالسلام مسلمانوں کو کیا سمجھتے تھے؟ اس سلسلہ میں معروف صحافی و کالم نویس جناب تنویر قیصر شاہد نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ اپنی ذاتی ملاقات میں راقم کو بتایا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئے اور قادیانی اخلاق پر غور کیجیے: ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون، ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا۔ میرے دوست نے ڈاکٹر سلام کا خاصا طویل انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے۔ انٹرویو کے دوران میں بالکل خاموش، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال و جواب سنتا رہا۔ دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دسترخوان پر لگانے کا حکم دیا۔ انٹرویو کے تقریبا آخر میں عبدالسلام مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہاں کہ آپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی کوئی سوال کریں۔ ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ چونکہ میرا دوست آپ سے بڑاجامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی محسوس نہیں کر رہا، ویسے بھی میں، آپ کی شخصیت اور آپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے آپ کے متعلق خاصا پڑھا بھی ہے۔ جھنگ سے لے کر اٹلی تک آپ کی تمام سرگرمیاں میری نظرں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے مفتوح سمجھتے ہوئے فاتح کے انداز میں حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ نہیں آپ ضرور سوال کریں، مجھے بہت خوشی ہو گی۔ بالآخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ آپ وعدہ فرمائیں کہ آپ کسی تفصیل میں گئے بغیر میرے سوال کا دوٹوک الفاظ ہاں یا نہیں میں جواب دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ٹھیک! بالکل ایسا ہی ہو گا؟ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم کی بحیثیت آخری نبی منکر ہے، بلکہ حضور نبی کریم کے بعد آپ لوگ (قادیان، بھارت کے ایک مخبوط الحواس شخض) مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے پر آپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام بغیر کسی توقف کے بولے کہ میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس جواب میں، میں نے انہیں کہا کہ مجھے مزید کوئی سوال نہیں کرنا۔ اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دستر خوان سے کھانا اٹھوا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔
معروف صحافی جناب زاہد ملک اپنی شہر آفاق کتاب ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم کے صفحہ 23 پر ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان دشمنی کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں معزز قارئین کو اس انتہائی افسوس ناک بلکہ شرمناک حقیقت سے باخبر کرنے کے لیے کہ اعلی عہدوں پر متمکن بعض پاکستانی کس طرح غیر ممالک کے اشارے پر کہوٹہ بلکہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں، میں صرف ایک اور واقعہ کا ذکر کروں گا اور اس واقعہ کے علاوہ مزید ایسے واقعات کا ذکر نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں لیکن میں نے ان سنسنی خیز واقعات کو تاریخ وار درج کر کے اس انتہائی اہم قومی دستاویز کی دو نقلیں پاکستان کے باہر دو مختلف شخصیات کے پاس بطور امانت درج کرا دی ہیں اور اس کی اشاعت کب اور کیسے ہو، کے متعلق بھی ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھتے ہوئے سنایا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا: اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلی امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کر رہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فورا بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین تنائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلاس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعوی کو نہیں جھٹلا سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی موجود ہے۔
یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے انداز میں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازو والے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر، ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جا رہا ہے اور وہاں جا کر یہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟ میں نے کہا میں فنی اور تکینکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہو گا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔
میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب ہم کا ریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے، اس کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، اچھا! تو یہ بات ہے۔ڈاکٹر عبدالسلام نے تمام تر مراعات حاصل کرنے کے باوجود اپنی پوری زندگی کی تحقیق کے نتیجے میں میں عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو کیا تحفہ دیا؟ان کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا؟ان کا کون سا کارنامہ ہے، جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا؟ان کی کون سی خدمت ہے، جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی بھی کمی واقع ہوئی؟انہوں نے کون سا ایسا تیر مارا، جس پر انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا؟یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں۔
٭٭٭