”کیا تم نہیں سوچتے… کیا تم غور نہیں کرتے” قرآن!

0
93
کامل احمر

قرآن بار بار انسان کو غوروفکر کرنے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کی تاکید کرتا ہے، تکرار اور تاکید کے ساتھ” کیا تم نہیں سوچتے؟، کیا تم غور نہیں کرو گے اور کیا وہ غور نہیں کرتے، یہ محض بیان بازی نہیں بلکہ خود کو سمجھنے اور کائنات کو جاننے کا ذریعہ ہے۔
شام ویلی اسٹریم کے ایک افغانی ریستوران میں نیویارک کے دانشوروں، صحافیوں، سیاسی طور پر جاننے والے اور متحرک وی لاگر کی محفل سجائی گئی ، یہ طاہر خان کی عرصہ کی کوششوں کا نتیجہ تھا ،اس سے بہت پہلے وہ کافی متحرک رہے ہیں حلقہ ارباب ذوق کی شروعات کے سلسلے میں یہ اُن ہی کا دم تھا کہ ہر ماہ وہ ارباب ذوق کے بینر تلے لوگوں کو جمع کرتے تھے دوسرے ملکوں سے آنے والے شعراء صحافی اور لکھاریوں کی شان میں محفل سجاتے تھے اور خوب نظامت کرتے تھے کہ لگتا تھا تمام حضرات انہیں ہی سننے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ”ڈائیلاگ” (مکالمہ) کے نام سے بھی علیحدہ پروگرام شروع کیا تھا جو نیویارک کے باسیوں کو یاد ہے اسی طرح طاہر خان ایک جانی پہچانی پرانی شخصیت بن گئے ہیں۔ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر دانشمند لوگوں کو دونوں پلیٹ فارم کے نیچے جمع کیا تھا اور اب دوبارہ وہ اس کو زندہ کر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ شامل ہیں۔ عتیق صدیقی، مشہور کالمسٹ اور پشاور ٹی وی کے براداکاسٹر جو دو سو میل اب اسٹیٹ کی دوری سے آتے ہیں یہ اُن کا شوق اور دلچسپی ہے کہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ کہا یہ گیا تھا کہ چند بار دوستوں کے ساتھ بیٹھیں گے لیکن وہاں تو کافی لوگ جمع تھے۔ سب جانے پہچانے ناموں سے اور اپنی شکلوں سے کہ وہ بہت اچھا بولے لیکن نام بتانا بھول گئے اور ہم اس کالم میں وہ ہی ڈال سکے جو انہوں نے کہا۔ سب سے پہلے طاہر خان نے آغاز کیا اور اوپر لکھی گئی باتوں کو اپنے انداز میں کہا۔ ”تم فکر کیوں نہیں کرتے ہو تدبیر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ عقل سے کام نہیں لیتے، تم سوچتے کیوں نہیں۔ اور اسے بنیاد بنا کر انہوں نے اپنا متن بیان کہا کہ مل جل کر بیٹھو اور کچھ حاصل کرو انہوں نے خلیل جبران کو کوڈ کیا۔ ”میں کسی دوست کے پاس بھی کسی مطلب کے بغیر نہیں جاتا کچھ لے کے جاتا ہوں اور دامن بھر کے لاتا ہوں”
انہوں نے ہندوستان کے پروپیگنڈے کا جو پاکستان کے خلاف ہوتا ہے ذکر کیا، میڈیلن البرائٹ کی کتابMIGHTY ALMITY کا حوالہ دیا۔ کیانی کی افکار پریشان سے متعلق THE WHOLE TRVTH کے تعلق سے الطاف گوہر کاذکر کیا کہ وہ کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن کتاب پبلشنگ میں تھی اور اس کانام بدل کرNOT THE WHOL TRVTH رکھ دیا۔ کلنٹن کا بھی ذکر کیا جو آخری پیراگراف میں ہے کہ انکی آمد سے پہلے ہندوستان نے31سکھوں کا قتل کیا تھا انہیں دہشت گرد کہہ کر وہ لشکر طیبہ کے تھے۔ واشنگٹن ٹائمز نے اس پر لکھ کر ثابت کیا کہ وہ ایجنسیوں کے آدمی تھے۔ ایک اور کتاب میں بمبئی میں ہوٹل میں دہشت گردی کے حوالے سے اجمل قصاب ذکر کیا کہ اس سے کہلوایا گیا ہم سے غلطی ہوگئی بھگوان معاف کرے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں گاہے بگاہے مل بیٹھ کر ان ہی باتوں پر گفتگو کرنا چاہئے جس سے پتہ چلتا رہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا دشمن کیا سازش کر رہا ہے۔ جہانگیر خٹک ایک مستند صحافی ہیں وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں اور وی لاگنگ کے ذریعے اپنا سیاسی اور معاشرتی موقف بھی بیان کرتے رہتے ہیں بے حد صاف ستھرے انداز میں کاش ہم سب ان کا یہ وی لاگ دیکھا کریں تو گھر بیٹھے جانکاری ہوتی رہے انہوں نےA-1 کا ذکر بھی کیا اور ایک محفل میں جانے کا ذکر کیا جو ترکش حضرات نے سجائی تھیPEACE ISLAND INSTITUTE نام ہے جس کا جہاں اسی طرح کی گفتگو ہوتی ہے حالات حاضرہ کے تعلق سے شرکاء میں ہر مذہب کے لوگ تھے اور اپنا اپنا متن بیان کر رہے تھے یعنی جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ غوروفکر کرو۔ ایسی ہی آگاہی کی محفل معاشرے کا جائزہ لینے کے لئے ضروری اور اہم ہے یہ بہت اچھا آغاز ہے اور ضابطہ بنا کر کچھ کرنا چاہئے۔ شاہد کامریڈ نے اچھی بات کہی کہ غیر کو حق نہیں کہ وہ ہم پر تنقید کرے۔ شفیع بیزار آغا سعید کا یاد دلایا کہ اس سلسلے میں طاہر خان نے مل کر بہت کام کیا ہے۔ ملک ایک ماں کی طرح ہے اور اسرائیل کو غزہ میں قتل عام کرنے کے لئے بلین ڈالرز نہیںدینا چاہیئے۔ ایک بڑی یونیورسٹی(ہارورڈ) نے ٹرمپ کے فیصلے کو رد کردیا اور حکومت سے ملنے والی امداد کی پرواہ نہیں کی کہ آزادی تقریر ہر کسی کا حق ہے اشارہ فلسطین کی طرف تھا۔
فضل الحق نیویارک کی معتبر متحرک شخصیت ہیں ہمارا اور انکا یہاں پر50سال سے زیادہ کا ساتھ ہے وہ سیاسی، ادبی معاشرتی سرگرمیوں میں متحرک رہے ہیں۔ آج جو پاکولی ہے اس کے بنیادی کرتا دھرتا میں سے ایک ہیں لیکن تنازعات بڑھے تو انہوں نے پاکولی کو مخالف گروپ کے حوالے کیا اور خود پسنی کی بنیاد ڈالی دوستوں کے ساتھ مل کر ان کا کہنا تھا یہ ایک اچھی ابتداء ہے لوگوں میں شعور کو تازہ کرنے کی اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی یہ جاری رہنا چاہئے انہوں نے طاہر خان صاحب کو اس کی مبارکباد دی نسیم گلگتی کا شمار گلگت کے تعلق سے نیویارک حلقے میں ہوتا ہے۔ اگر سچ پوچھیں تو گلگت کی پہچان ہی نسیم گلگتی سے ہوئی وہ اپنے طور سے گلگت کا چرچا کرکے وہاں کی سیاحت کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا ایسی محفلیں سیاست سے پاک ہو کر ہوتی رہنی چاہئیں۔
ایک اور شریک محفل کا کہنا تھا آپس میں ملنا اس سے بہتر کوئی بات نہیں لوگ اپنی مصروفیات کا بہانہ کرتے ہیں۔ ہماری کمزوری ہے کبھی کلچر میں تھا کہ مسجدوں اور محلوں میں مل بیٹھتے تھے انہوں نے شعر بھی کوڈ کیا۔ ایک اور صاحب کا کہنا تھا جس دور میں ہم گھر میں بیٹھے رہیں تو کسی کی کوئی خبر نہیں۔ ہم گھر میں بیٹھےPSYCHO ہوجائینگے آئندہ کا سوچنا ہے سوچنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ تاج اکبر کا کہنا تھا کہ میں طاہر صاحب کا ممنون ہوں۔ عتیق صاحب کو خوش آمدید کہتا ہوں یہ اچھا آغاز ہے اچھے لوگوں کا اکٹھا ہونا۔ قول وفعل کا اختلاف ہے یہ ختم ہونا چاہئے قوم کی ترقی کا راز ہے۔ طاہر خان جیسے انسان ہماری خوش نصیبی ہے کہ وہ یہ کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور پاکستانی سیاست سے جان چھڑانا ہے۔
وکیل انصاری صاحب ایک نمایاں ہستی ہیں اور عرصہ دراز سے وہ فکروفن کے تحت محفلیں سجا رہے ہیں۔ پاکستان سے آنے والوں کے لئے جو شاعر اور اوباء ہیں انہوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ ہم اُن کی اچھی باتوں کا ذکر کریں تو کئی صفحات درکار ہیں۔ ان کا بھی یہ یہی کہنا تھا کہ ہمیں مل بیٹھنا چاہیئے۔ اس سے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانیوں کو لوکل یا لیٹکس میں شریک ہونے پر زور دیا ہم نے ڈاکٹر شفیع بیزار اور ڈاکٹر جان سے بہت کچھ سکھا ہے عدنان بخاری جو جانی پہچانی شخصیت ہیں نے کہا انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں اور اپنے نمائندے کو لے کر آئیں۔ ہوٹل کی جاہل انتظامیہ نے جہالت کا بھرپور ثبوت دیا دوسرے ہال میں کسی کی سالگرہ تھی اور میوزک زور آواز میں کانوں میں پڑی آواز سننے نہیں دے رہا تھا۔ جو سنا وہ لکھ رہے ہیں اور زور دیتے ہیں اور ریستوران کو بائیکاٹ کرنے کا۔ عتیق صدیقی نے بتایا کہ طاہر خان کی خواہش ہے کہTHINK TANK قائم کیاجائے یہ انکی کوشش رہی ہے کہ مل جل کر بیٹھیں چار پانچ افراد کی کمیٹی بنائی جائے اور اختلافی مسائل کی بجائے۔ اس موضوع کا چنائو کریں جس میں اتفاق ہو۔ طاہر خان درد دل رکھتے ہیں اور یہ جاری رہنا چاہئے اس کے بعد طاہر خان نے اعلان کیا کہ طعام تیار ہے لیکن یہاں بھی ریستوران کی بے ہودگی اور بے انتظامی سامنے آئی۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here