”مہنگائی کا سونامی اور بوٹ پالشی”

0
126
شبیر گُل

قارئین ! انسانی زندگی میں جوتوں کی بہت اہمیت ہے۔ آدمی کی شخصیت اور پرسنیلٹی اْس کے لباس اور جوتوں سے نظر آتی ہے۔بغیر جوتوں کے لباس کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے۔اچھی نسل کے جوتے خطرناک جانوروں کی کھال سے تیارہوتے ہیں۔جانور جس قدر موذی اور زہریلا ہو گا جوتے اْسکے زہر کی شدت اور درندگی کی وجہ سے مہنگے ہوں گےAlligator, crocodile ، snakeاور Cobra کے شوز انتہائی مہنگے ہیںلیکن کچھ جوتے ایسے بھی ہیں جو انسانی چمڑی سے پیوست ہیں۔ پوری پاکستانی قوم ایسے جوتوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔حالانکہ یہ جوتے اکثر عوام کے سروں پر پڑتے ہیں۔ جاہل عوام ان جوتوں کا اثر کبھی اپنے دماغ پر نہیں لیتے۔ویسے جوتے پالش ہوں تو انکی چمک میں چہرہ تک نظر آتا ہے۔جوتے کئی قسم کے ہیں۔ جیسے ڈکٹیڑوں اور آمروں کے جوتے، مشرف ،نواز شریف اور بھٹو خاندان کے جوتے،یہ جوتے ابھی بھی مارکیٹ میں موجود ہیں۔قصہ پارینہ نہیں ہوئے تھے کہ ایک نیا جوتاسپورٹس مین (کپتان )شْغل اعظم کا جوتا مارکیٹ میں آگیا،جسے یوتھیئے چوم چوم کر پاگل ہوچکے ہیں۔پوری پی ٹی آئی نے وہ جوتے پہن لئے ہیں۔ تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان جوتوں کی سونامی نے ماحول ہی بدل دیا۔ ملک میں غربت کے زلزلے آئیں یا مہنگائی کا طوفان، وردی کی تبدیلی آئے یا بوٹوں کی سونامی۔اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یوتھیے ،عمرانیات کی رو میں بہہ کر اندھے ہوچکے ہیں انہیں ترقی کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ نہ گیس، نہ بجلی نہ پانی، مہنگائی نے یوتھیوں کو اندھا کردیا ہے۔عقل کے اندھے تو تھے ہی،لیکن اب تو شعور اور اخلاق کے بھی اندھے نظر آتے ہیں۔عوام نے بے حیائی اور بیروزگاری کی سونامی، یوٹرن اور جھوٹ کی سونامی۔ بے دینی اور قادیانیت کی سونامی۔دیکھی۔ قرآن میں ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا ہے یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں ، انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔خدارا شخصیت پرستی میں اتنے اندھے نہ ہو جاؤ کہ سچ سے ہی پھر جاؤ۔دین کے وفادار بنیں۔ریاست کے وفادار بنیں۔ عمران۔زرداری اور نواز کے نہیں۔ غلط کو غلط،صحیح کوصحیح کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہی سب سے بڑی حب الوطنی ہے۔نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رھے تھے کہ ایک صحابء رسول اْٹھے اور پوچھا۔ یا رسول اللہ میرے ھمسائے کس جْرم میں پکڑے گئے ہیں۔ خضور نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جاری رکھا، وہ صحابی دوسری بار اْٹھے یہی سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جاری رکھا، صحابء رسول تیسری مرتبہ اْٹھے تو رسول اللہ نے کوتوال سے فرمایا کہ اسکے ہمسائے کو چھوڑ دیا جائے۔ دربار آقاء دو جہاں ، نبیوں کے امام ،رحمت العالمین کا ھو اور انصاف نہ ہو۔ صحابہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھتے تھے۔یوتھیوں سے کارکردگی کا پوچھیں تو یہ گالیاں بکتے ہیں۔ہم ایک کرپٹ،جھوٹی منافقوں کی سرکار سے ریاست مدینہ کی اْمید لگائے ہیں۔ریاست مدینہ میں تو صحابء رسول ، نبی کریم سے سوال پوچھ سکتا تھا لیکن ریاست یوتھیا میں سوال پوچھنے پر گالیاں، مغلظات اور پٹواری قرار دے دیا جاتا ہے۔ یوتھیوں کی عقل پر بھی وہی پردہ پڑا ہے جو پٹواریوں اور جیالوں کی عقل پر پڑا رہااورہے،آج ریاست مدینہ کی مثالیں دی جاتی ہیں،چینی ،آٹا مافیا اور ٹھگ وزارتوں پر براجمان ہوں۔بے انصافی اور کرپشن کا دور دورہ ہو، بے روزگاری اور مہنگائی ہو۔ غریب اور متوسط طبقے کا جینا دو بھرہو۔ ایک جھوٹا شخص ہر روز ٹی پر آکر مہنگائی ختم کرنے، انصاف فراہم کرنے کے جھوٹے وعدے کرتا و۔
(ایاک نعبْدْ و ایاک نستعین) کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہو۔ہر ادارے میں قادیانیوں کو پروموٹ کرتا ہواور عوام ایسے جھوٹے شخص سے ریاست مدینہ کے اقیام کی آس لگائے بیٹھے ہوں۔ایسی قوم کی سادگی پر قربان جنہیں نواز شریف جیسے چوروں زرداری جیسے ڈاکوؤں،مشرف جیسے بزدلوں اور عمران جیسے منافقوں میں ایمانداری نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں بندہ بڑا ایماندار ہے جس کے گرد نوے فیصد وہی لوگ ہیں جنہیں وزیراعظم چار سال پہلے ڈاکو کہتے تھے۔ یوتھیے بھی مختلف پارٹیوں اور مختلف الخیال لوگوں پر مشتمل چوں چوں کا مربہ ہے جن کے ذہنوں پر بوٹ پالشی کا اتنا اثر ہے کہ انکی آنکھیں عوام کی کسمپرسی کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہیں۔
ملک کی اکانومی تباہ کر دی گئی ہے اورہم ساڑھے تین سال بعد بھی ناکامیوں کا ملبہ ماضی کے حکمرانوں پر ڈال رہے ہیں۔
بوٹ پالشی میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور اپنے عزیز واقربا کی چیخیں اور گردونواح میںہونے والی خودکشیاں نظر نہیں آرہیں۔ سویٹزر لینڈ کے بینکوں سے دو سو ارب لانے والوں نے اسٹیٹ بینک پاکستان کوہی آئی ایم ایف کے حوالے کردیا۔
مہنگائی کا سونامی،اسٹیٹ بینک گروی رکھنے کے بعد بھی یوتھیوں کی تبدیلی کا کیڑا زندہ ہے۔ جیسے بھٹو زندہ اور نواز اک واری فیر کا دماغی کیڑا زندہ ہے۔
جمہوری جوتے،آمریت بوٹ، اور اب عمران خان کے اسپیشل جوتے، وزنی ہیں جنہیں پہن کر دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ ہر طرف تبدیلی نظر آتی ہے انکی باتیں کروڑوں کی دکان پکوڑوں کی۔
شغلِ اعظم کے چودہ نکات:
1. قرضہ نہیں لوں گا،
2. پیٹرول گیس بجلی سستی کروں گا،
3. میٹرو بس نہیں بناؤں گا،
4. ڈالر مہنگا نہیں کروں گا،
5. ہندوستان سے دوستی نہیں کروں گا،
6. ٹیکس ایمنسٹی سکیم نہیں دوں گا،
7. آزاد امیدوار نہیں لوں گا،
8. سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا،
9. وزیراعظم ہاؤس کو لائیبریری بناؤں گا اور گورنر ہاؤسز بلڈوزر سے گرا دوں گا
10. بیرون ملک دورے نہیں کروں گا اور عام کمرشل پرواز سے سفر کروں گا،
11. ہیلی کاپٹر کی بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل استعمال کروں گا،
12. مختصر ترین کابینہ رکھوں گا،
13. جس پر الزام ہو گا اسے عہدہ نہیں دوں گا،
14. جو حلقہ کہیں گے کھول دوں گا
اور میں آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا
بانی پاکستان قائدِاعظم کے تاریخی چودہ نکات کے بعد برصغیر میں بانی نیا پاکستان۔ ریاست مدینہ کے علمبردار۔شغلِ اعظم عمران خان کے چودہ نکات کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی
تین سال کی معاشی بربادی کے بعد بھی اگر ضمیر نہ جاگے تو سمجھ لیجئے ، وزنی جوتے اٹھانے سے یہ نسل ذہنی طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔شخصیت پرستوں سے عرض ہے کہ دین کے وفادار بنیں۔ریاست کے وفادار بنیں۔ عمران۔زرداری اور نواز کے نہیں۔
غلط کو غلط،صحیح کوصحیح کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہی سب سے بڑی حب الوطنی ہے۔بے جا عقیدت ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے۔ جو پتھروں کو معبود، مردوں کو زندہ ، بندوں کو خدا، عزت لوٹنے والوں کو پیرو مرشد اور ملک لوٹنے اور تباہ کرنے والوں کو اپنا لیڈر مانتا ہو۔ اپنی عقیدت عقل و فطرت کی کسوٹی پر پرکھتے رہناچاہئے ناکہ عقل کو جھوٹوں اور منافقوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ شغل اعظم رفارمز کرنے آئے تھے، نہ کہ سیاست کرنے۔ اپنے مقصد کے آرڈیننس اور بل پاس کروا لئے۔ عوام کو ریلیف ، پولیس، قانون اور مقننہ کے لئے ایک بھی ریفارم نہ لاسکے، اپنی مرضی کے چوروں اور ڈاکوؤں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔ یہی انکی ناکامی ہے۔
دھرنوں کی جس منفی سیاست کا آغاز عمران خان نے بوٹوں والی سرکار کے تعاون سے کیا تھا۔ وہی منفی سیاست اور دھرنے ْمولانا فضل الرحمن بھی کر رہے ہیں۔ اب تبدیلی مافیا اور پی ٹی آئی کو ان سے بہت تکلیف ہو رہی ہے، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کے مصداق۔
سلیکٹرز نے اگر سونامی کو متعارف کرایا تو وہ پرانے نوٹ اور کھوٹے سکے ایک بار پھر میدان میں اتار سکتے ہیں۔(نواں نو دن پْرانا سو دن )پی ٹی آئی کے زر خرید صحافی آہستہ آہستہ منہ چْھپاتے نظر آرہے ہیں ۔تبدیلی سرکار کے سوشل میڈیا خرکارے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز میں سر میں خاک اور اپنوں پر لعنت بھیجتے نظر آر ہے ہیں۔ بیگم عمران خان کو شیروکے آنسو تو نظر آتے ہیں۔ مگر غریب عوام کے آنسو اور خودکشیاں نظر نہیں آتیں۔ منی بجٹ نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے، ہر چیز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔منی بجٹ نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
جن یوتھیوں کو مہنگائی نظر نہیں آتی۔ وہ کسی دوسری دْنیا میں ر ہتے ہیں یا اْنکے پاس حرام کی کمائی ہے۔ جس سے انہیں مہنگائی اور بیروزگاری محسوس نہیں ہو رہی۔
لانگ مارچ ہو یا شارٹ مارچ۔ دھرنا ہویا احتجاج،اس سے غریب کی چیخیں کم نہیں ہونگی،حکمران اور اپوزیشن خوف خدا کھائیں۔ پسے ہوئے لوگوں پر ترس کھائیں۔
بوٹوں والی سرکار کو بھی سرحدوں کے غیر معمولی حالات پر توجہ دینی چاہئے۔
انکا سیاست سے کوئی تعلق نہیں،ستر سال انکی اکھاڑ پچھاڑ نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے،ٹیکنوکریٹ یا کوئی دوسرا نظام لانے کی فکر چھوڑیں،یہ انکے بس کا کام نہیں
یہی کام نواز شریف اور زرداری کے بوٹ
پالشیے کر ر ہے ہیں،کسی کو عوام کی تکلیف اور اصل درد کا احساس نہیں،فاقوں، غربت اور تنگی سے مجبور پورا پورا خاندان بچوں سمیت خودکشیاں کر رہا ہے۔
لیکن بے حس لوگ پْرانا چموٹا سنبھالے، ماضی کے حکمرانوں پر لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ کچھ ڈلیور کیا ہے اور نہ ہی یہ اس قابل ہیں۔
جیالوں اور پٹواریوں پر تنقید کریں تو وہ برداشت کرتے ہیں۔ یوتھیے کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں۔ جنہیں دوسروں میں کیڑے تو نظر آتے ھیں لیکن اپنا دماغی کیڑا نظر نہیں آتا۔
میرا ماننا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی تبدیلی کا کیڑا عوام نکال دینگے۔ جس بوٹ کو پالش کرتے کرتے یہ اس مقام تک پہنچے، یہی بوٹ اب انکے سر اور پیٹھ پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔انہوں نے افہام و تفہیم کے دروازے بند کرکے ان پر جوتے لٹکا رکھے ہیں یہی جوتے آنے والے دنوں میں ان کو منہ چڑائیں گے۔
پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں جوتوں کی سونامی کا خدشہ ہے جو آئندہ تبدیلی سرکار کے ہر کارکن کا مقدر ہوگاجہاں بھی ووٹ مانگنے جائیں گے پسے ہوئے عوام کے جوتے انکے منتظر ہوں گے۔
جنہوں نے سونامی سرکار (شغل اعظم )کو ووٹ دئیے وہ شرمندگی میں یہ شعر گنگنا رہے ہیں۔
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب۔
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پی ٹی آئی کے کارکن شرمندہ شرمندہ بڑبڑا ررہے ہیں۔
اْس پہریدار کی طرح جو دور سے آواز لگاتا ہے۔
جاگتے رہنا۔ پر ساڈھے تے نہ رہنا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here