مغرب میں شادی کا مقدس رشتہ !!!

0
50
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

مغرب میں شادی کا مقدس رشتہ :- محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آجکل مغربی معاشرے کے ساتھ مشرق میں بھی بگاڑ کی ایسی ہوا چلی ہے جہاں گھروں کو بچانا مشکل ہوچکا ہے عزت دار مرد ہو یا عورت انکی زندگی اجیرن بن چکی ہے لکھنے والے ان موضوعات پر کھل کر لکھ رہے ہیں دنیا میں میری مرضی ہو یا تیری مرضی سب کو اپنے حقوق کا بھوت سوار ہے اور حقوق مل بھی رہے ہیں لیکن وہ کون سا جن ہے جو نظر نہیں آتا اور رشتوں میں بگاڑ پیدا کررہا ہے تمام حقوق کے باوجود طلاقیں عام ہوچکی ہیں اور عورت ہو یا مرد دونوں ایک دوسرے سے نالاں نظر آتے ہیں یہ عام لوگوں کی بات ہے زمہ دار سمجھدار دین دار لوگ آج بھی بہترین ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہ زندگی گزرانا جانتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں اب ایک مولانا کی تجزیاتی تحریر پڑھیں جس میں انہوں نے کچھ خرابیوں کا تزکرہ کیا ہے یہ ایک رخ ہے دوسرا رخ مردوں کی طرف سے زیادتی اور نا انصافی جس پر میں ہمیشہ روشنی ڈالتا ہوں صنف نازک سے جتنا نرم رویہ اور نرم دل ہوکر رہا جائے اتنا ہی اچھا ہے “عورت کی تابعداری اور بغاوت” (یہ تحریر ان خواتین کے لیے ہے جو شادی کے مقدس رشتے کی اصل روح کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں) آج کل کی خواتین کہتی ہیں کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن جیسے ہی لفظ’تابعداری’ سنتی ہیں؟ وہ گھبرا جاتی ہیں۔ بغاوت پر اتر آتی ہیں۔ اور اسے’جبر’ قرار دینے لگتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے: تابعداری غلامی نہیں ہے۔ یہ ایک ڈھانچہ ہے۔ اور ڈھانچے کے بغیر شادی؟ محض کاغذات والا ایک افراتفری ہے۔ آئیے، اسے ذرا سمجھتے ہیں وہ ایک خاوند تو چاہتی ہیمگر اس کی قیادت کو مسترد کرتی ہے وہ کہتی ہے: “میں ایک ایسا مرد چاہتی ہوں جو رہنمائی کرے۔” لیکن جب مرد رہنمائی کرتا ہیں؟ تو وہ اسے’قابو کرنا’ کہتی ہے۔ اسے رہنمائی نہیں چاہیے۔ اسے ایک’سجاوٹ’ چاہیے ایک ایسا مرد جو قائد جیسا دِکھے، مگر نوکر کی طرح حکم مانے۔ یہ شادی نہیں ہے۔ یہ ایک ڈرامہ ہے. وہ بغاوت کو ‘آزادی’ کا نام دیتی ہے وہ ہر فیصلے پر بحث کرتی ہے۔ ہر حد کو للکارتی ہے۔ ہر ہدایت پر سوال اٹھاتی ہے۔ اور جب آپ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں؟ تو آپ’زہریلے’ ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے: ایک گھر میں دو سردار نہیں ہو سکتے۔ ایسی ہر چیز جس کے دو سر ہوں،ایک عفریت ہوتی ہے۔ وہ بغیر کسی نظم و ضبط کے فوائد چاہتی ہے اسے مراعات سے پیار ہے: آپ کی کمائی آپ کی حفاظت آپکا نام مگر ان کے ساتھ آنے والے نظم و ضبط سے نفرت ہے۔ اسے تاج تو چاہیے مگر بادشاہی نہیں۔ خطاب تو چاہیے مگر اعتماد نہیں۔ تحفظ تو چاہیے مگر سپردگی نہیں۔ تابعداری کا خوف درحقیقت غرور ہے جو چھپا ہوا ہے تابعداری اسے کمزور نہیں کرتی۔ یہ اس کا مقام بلند کرتی ہے۔ مگر اس کا غرور اس سے کہتا ہے: “اگر میں نے اس کی پیروی کی،تو میں اپنی پہچان کھو دوں گی۔” نہیں۔ اگر وہ پیروی نہیں کرے گی،تو وہ شادی کھو دے گی۔ کوئی بھی مرد ایک باغی عورت کے ساتھ گھر نہیں بنا سکتا ایک مرد ایک خاموش عورت کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کاہل عورت کے ساتھ بھی۔ لیکن ایک عورت جو تابعداری کو جبر سمجھتی ہے؟ وہ ہر دن اس سے لڑے گی، ہر رات اس کی توانائی چوسے گی، اور اس گھر کو تباہ کر دے گی جسے بنانے کی وہ دونوں نے قسم کھائی تھی۔ شادی اس عورت کے لیے نہیں ہے جو تابعداری کو جبر سمجھتی ہے۔ کیونکہ تابعداری غلامی نہیں ہے۔ یہ حفاظت ہے۔ یہ وہ ڈھال ہے جو گھر کو محفوظ رکھتی ہے۔ یہ وہ اعتماد ہے جو محبت کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ وہ نظم ہے جو ورثہ تعمیر کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کی عزت نہیں کر سکتی؟ تو وہ شادی نہیں چاہتی۔ وہ طاقت چاہتی ہے۔ اور طاقت کی کشمکش گھر نہیں بناتی یہ انہیں جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ جو بیوی تابعداری میں ناکام رہے اور مستقل بغاوت پر آمادہ ہو تو اسے فوری چھوڑ دو اور اپنی جان بچا لو کہ تمھاری جان قیمتی ہے۔ تم ایک باغی اور بدتمیز عورت کو چھوڑنے میں جتنی دیر لگا گے تمہیں اتنی ہی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی. پردے کی وجہ سے مولانا کانام شیئر نہیں کیا اور کیا معلوم یہ انکی تحریر تھی بھی یا نہیں ہاہاہا آجکل کی دنیا میں تو کسی کا کام اور کسی کا نام روشن ہوجاتا ہے جس طرح حالیہ عالمی کرکٹ میچ میں ہوا جہاں طاقت تکبر اور پیسے کی بنیاد پر کھیل کی روح ہی فنا کردی گء !! ایک ملک جسکا کوء لینا دینا ان واقعات سے نہ تھا جنکو بنیاد بناکر اس کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانا بھی گورا نہ کیا اس ملک کے زمہ دار صدر سے ٹرافی وصول نہ کی میرا ایک سوال جب اتنی خار ہے تو کھیلتے ہی کیوں ہو مت کھیلو منع کردو لیکن چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی بس یہی حال اس مقدس رشتے کا کہیں دنیا والوں نے کہیں آذادی نسواں کی نعروں نے اور کہیں دنیاوی قوانین نے جو عورت کے ساتھ تحفظ کا نام لیکر کھیل کھیلا ہے آج وہ خود عورت پریشان ہے اتنی طلاقیں اتنی گھروں کی تباہیاں اور خاندانوں کا اجڑنا عام نہ تھا جو اب ہوچکا ہے جس دور میں عزت کے ساتھ دو روٹی مشکل ہورہی ہو وہاں گھروں کی عزتوں کا حال کیا ہوگا کبھی وقت ملے تو سوچئیے گا ضرور کیونکہ اب یہ تباہی اور تپش قریبی جاننے والوں کے گھروں تک آچکی ہے اور کء خاندان اس سے متاثر ہیں ۔۔ میری دعا ہے ہر شادی شدھ جوڑا اس رشتے کو نبھائے بوجھ نہ سمجھے میاں اور بیوی ایک گاڑی کے دو پہئیے بن کر رہیں ایک دوسرے کی ستر پوشی کریں نہ کہ عیب جوء اور بہتان کا راستہ اپنا کر ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور آنے والی تباہی پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہیں خیر اندیش سید کاظم رضا نقوی
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here