عروج پر ہے کمال بے ہنری!!!

0
73
جاوید رانا

اتوار کو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کیخلاف جو کارکردگی دکھائی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے،” ویل ڈیزروڈ ڈیفیٹ پاکستان” یا وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ۔جو کھیل کھیلا گیا وہ پاکستان کے علاوہ کوئی ٹیم نہیں کھیل سکتی ہے خواہ عمان یا ہانگ کانگ ہی کیوں نہ ہو۔ تفصیل میں کیا جائیں کہ ہر پاکستانی اس سے واقف ہے اور دل برداشتہ ہے۔ خدا کی پناہ 113 رنز پر دو وکٹیں گریں، باقی آٹھ کھلاڑی 33 رنز پر ڈھیر ہو گئے۔ بھارت کے تین کھلاڑی تین اوورز میں ہی پویلین لوٹ گئے پر جو کچھ ہوا وہ ناقابل یقین تھا، تلک ورما نے رنز کے ڈھیر لگا دیئے نیتجہ جو ہوا اس نے قوم کو آنسو ہی رُلایا۔ وطن عزیز میں ہاکی، اسکواش، باکسنگ و دیگر کھیلوں کی تباہی کے بعد کرکٹ کا کھیل ہی رہ گیا ہے جو چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن ہے مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ باقی کھیلوں، پاکستانی سیاسی و اقتصادی اور معاشرتی معاملات کی طرح ارباب بست و کشاد اس کھیل کو بھی تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ 41 سال بعد ایشیئن کپ کے فائنل میں بھارت کیخلاف پہلی دفعہ آنے پر بڑے دعوئوں اور پیشگوئی کے باوجود بغیر کسی منصوبہ بندی، غلط سلیکشن اور ناقص کپتانی نے قوم کو جس شرمندگی سے دوچار کیا ہے اس کا مداوا بھارتی ٹیم کی فائنل کے بعد مسلم و پاکستان دشمنی اور پاکستان کیساتھ (آئی سی سی جسے انٹرنیشنل کونسل کے برعکس انڈین کرکٹ کونسل کہا جانا چاہیے) کے بھارت نواز روئیے کے باوجود پاکستانیوں کیلئے ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھارتی ٹیم کے ایشیئن کرکٹ کونسل کے موجودہ صدر پی سی بی کے چیئرمین اور پاکستانی وزیر داخلہ سے وننگ ٹرافی وصول نہ کرنے کے منکرانہ فعال پر آئی سی سی بھارتی تابعداری کے کوئی قانونی اقدام کرنے سے تو قاصر نظر آتی ہے لیکن دوسری جانب پاکستانی کنٹرولڈ میڈیا وننگ ٹرافی کے حوالے سے اس معاملے کو وزیر داخلہ کے بھارت کے منہ پر طمانچہ مارنا قرار دے رہا ہے۔ بھارت کا میڈیا تو اپنی مئی کی ذلت و شکست کے سبب اول فول بکنے پر مجبور ہے مگر پاکستانی میڈیا کو تو سیاست او رکھیل میں فرق کرنا چاہیے اور حقائق سے آگاہی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر بھی پاکستانی میڈیا کا اسٹیٹ فرمانبرداری کا رویہ ہی نظر آیا۔ وزیراعظم کے استقبال میں ریڈ کارپٹ ریسیپیشن، سیکیورٹی اسکواڈ وغیرہ کو پاکستانی چینل اس طرح دکھا رہے تھے گویا یہ کسی پاکستانی سربراہ کا شایان شان پہلا استقبال ہوا ہو۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو امریکی میڈیا اس کی کوریج کم ز کم فوکس ضرورر کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو بھی سربراہ مملکت امریکہ آتا ہے اس کا اسی طرح استقبال ہوتا ہے، ایوب خان سے لے کر عمران خان تک تمام سربراہان کا استقبال اسی طرح سے ہوا البتہ ایوب خان کے استقبال کیلئے صدر جان ایف کینیڈی اور ان کی اہلیہ نے جہاز تک جا کر ان کو خوش آمدید کیا تھا جو ایک غیر معمولی اقدام تھا۔ شہباز شریف کی ملاقات پر غیر معمولی بات آرمی چیف عاصم منیر کی ہمراہی تھی، عموماً جب کوئی سربراہ مملکت صدر امریکہ سے ملاقات کیلئے آتا ہے تو اوول روم میں متعلقہ سربراہان اور ان کی سول ٹیم ہی مذاکرات میں ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے دونوں جانب فریقین ملاقات سے قبل ہی متعلقہ امور پر تبادلۂ خیالات و متوقع فیصلوں پر اتفاق یا اختلاف کے نکات پر پہنچ جاتے ہیں۔
مذکورہ ٹرمپ و شہباز شریف ملاقات میں آرمی چیف کی شرکت، میڈیا (امریکی سمیت) پر کوریج کی پابندی اور بعد از ملاقات میڈیا کانفرنس کا نہ ہونا بہت سے سوالات و خدشات کو موجودہ عالمی حالات خصوصاً غزہ کے حوالے سے پیدا ہونیوالی صورتحال مسلم امہ کا اتحاد، ٹرمپ کا مسلم رہنمائوں سے تبادلۂ خیالات 21 نکاتی امن معاہدہ اور ٹونی بلیئر کی غزہ میں امن و حالات کی بہتری کیلئے انتظامی بورڈ کے سربراہ کی نامزدگی، نیتن یاہو کی قطر سے معذرت کا تناظر اس امر کی نشاندہی ہے کہ مسلم امہ کا حالیہ اتحاد صہیونی و رہبانی طاقتوں کیلئے پریشان کن ہے وہ اس میں دراڑیں ڈالنے کیلئے نئے منصوبوں میں مصروف ہیں۔ ٹونی بلیئر کی اسرائیل پسندی اور نیتن یاہو و ٹرمپ کے بیٹے سے رابطے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مزید برآں بگرام ایئر بیس کے حصول کا ٹرمپ کا مطالبہ کرنا ہمارے خدشات کو قوی کرتے ہیں کہ کہیں امریکی و صہیونی ایجنڈے میں جانے نہ جانے ہم آلۂ کار تو نہیں بن جائیں گے۔ بقول غالبً، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق ہمارے شکوک و خدشات اپنی جگہ لیکن ہمارے صحافی و سیاسی لوگ بزعم خود عالمی صورتحال اور امریکہ کے پاکستان پر عنایات و محبت کے ڈونگے برسانے پر شادیانے بجا رہے ہیں، خصوصاً ہمارا میڈیا جو خود کو عالمی حالات و واقعات کے حوالے سے چیمپئن گردانتا ہے، لیکن سیاسی و ابستگیوں اور محدود سوچ کے سبب کنویئں کا مینڈک ہی ہے۔ ہم کو خود ستائی کا شوق نہیں لیکن امریکہ میں 46 برسوں کے قیام اور 27 برسوں سے صحافت سے وابستہ رہنے کے بعد یہ کہنے میں حق بجانب کہ امریکہ آکر جو میڈیا صحافی (سب نہیں) یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی حالات حاضرہ سے ناواقف ہیں اور انہیں جو کچھ بتایا جائے سنایا جائے وہ امناصدقناً کر لیں گے، بیرون ممالک رہنے والے حقائق اور واقعات سے کنوئیں کے مینڈکوں سے زیادہ واقف رہتے ہیں امریکہ آنے والے میڈیا افراد کم از کم اس حقیقت کو ضرور نوٹ کر لیں، ویسے بھی دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے اور کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہتا ہے ۔
٭٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here