خلاصہ علم نجوم

0
40
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے نجوم ایک ظنی علم ہے آپ کی قسمت و تقدیر کا تعلق اللہ کی ذات پر ہے جو ہر شے پر قادر ہے ،بے شک ہمارا ایمان ہے البتہ ترقی کی سعی کرنا اور ہر ممکنہ زمینی تدبیریں جن پر عمل کرکے اس کی اثر پذیری کا تجربہ کیا جاتا ہے بس اس طرح کی علم فلکیات کی ایک شاخ کا نام نجوم ہے اس پر تکیہ نہ کیا جائے بلکہ اس کو تدبیر کے طور پر دیکھنا چاہئے جس طرح آپکا کام بیماری میں دوا لینا ہے، شفا من جانب اللہ پاک ہے بے شک امید ہے اس سے بات آپ پر واضع ہوگئی ہوگی ۔ اب آتے ہیں موضوع کی جانب ۔
کل درجات فلک تین سو ساٹھ ہیں۔انہیں دو یا اس کے اضعاف سے تقسیم کیا یعنی چار آٹھ وغیرہ سے تو نحس نظرات اخذ ہوئیں۔ جیسے تین سو ساتھ تقیسم دو برابر ایک سو اسی۔ یہ نظر مقابلہ کیلئے فاصلہ مقرر کیا گیا۔ کہ جب دو کواکب کے درمیان باہمی فاصلہ ایک سو اسی درجہ ہو تو اسے نظر مقابلہ کا نام دیا گیا۔ اور یہ بالکل ایک دوسرے کے مقابل ہیں پس اسے نحس اکبر قرار دیا گیا۔
باقی نحس نظرات بھی اسی دو کے اضعاف سے وضع ہوئیں جیسے تربیع و نیم تربیع وغیرہ۔ تین کی تقسیم سے اور نظرات مرتب ہوئے۔ تین سو ساتھ تقسیم تین بربر ایک سو بیس۔ یہ سعد اکبر نظر تثلیث کے نام سے موسوم ہوئی۔اور یہ نقاط مقابل یعنی صفر و ایک سو اسی کے پہلو میں ہونے کی وجہ سے سعد اکبر تسلیم ہوئی۔ اسی طرح پھر تسدیس چھ کی تقسیم سے۔ نیم تسدیس نو کی کی تقسیم سے علی ہذا القیاس۔ تمام علم نجوم میں خواہ وہ کواکب ہوں، بروج ہوں، نظرات ہوں، یوگ ہوں، سہائم ہوں یا گھر ہوں، سب کا انحصار ریاضی کے اسی فارمولے پر ہے۔ گویا ریاضی کا یہ قانون پورے علم نجوم کی اساس ہے۔ کواکب ہے کہ صرف تعلقات بلکہ ان کی نفرادی قوتیں بھی اسی اصول پر قائم ہیں میں وہ بھی آج بیان کردوں گا۔میں آج تمام علم نجوم کا خلاصہ بیان کردوں گا۔ یہ جس کی سمجھ میں آگیا وہ پکانجومی بن جائے گا۔
اب رہ گیا اس کی رو سے پیشگوئیاں وغیرہ کرنا یا اثرات بیان کرنا وہ آپ مشقوں سے اس پر عبور حاصل کرسکتے ہیں۔جسے یہ سمجھ نہ ائے وہ میری تحریروں کو درجنوں مرتبہ پڑھے۔ ان شا اللہ تعالی امید ہے کہ ضرور سمجھ آ جائے گا۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اس سے کواکب کی سعادت میں کمی واقع ہوجاتی ہیاور نظر کی نحوست بھی میں کمی ہو جاتی ہے۔ دونوں کا اصول یہی ہے۔ اس کے برعکس نحوست کا اصول بھی یہی ہے!
اس میں قوت فیصلہ کیلئے غلبہ و تعلقات اور زائچے کی دیگر چیزوں کے مطابق حکم لگانا آسان ہوتا ہے ۔ مثلا شمس و قمر سعد اور دوست ہیں ان میں مقابلہ ہو تو وہ نحس اکبر نظر یے۔ لیکن کواکب سعد ہیں۔ اب اگر ان نئیرین کے دوست قوی ہوں تو سعادت کا غلبہ رہے گا اگر ان کے مخالفین باقوت ہوں تو نحوست کا غلبہ ہوگا پس اسی طرح کا حکم لگایا جائے گا۔ اب انہیں اصولوں کی رو سے احکامات لاگو کئے جاتے ہیں جن کے تحت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں وہ منسوبات سے اخذ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز پر یہ اثر ہوگا اور کیا ہوگا جیسا ہوگا وغیرہ۔ یہ منسوبات بھی ریاضی کے ہی اصول پر ہیں۔ پھر بھی میں وہ وجہ لکھ ہی دیتا یوں کہ سعد سعد کیوں اور نحس ستارہ نحس کیوں ہے؟
ایک زائچہ بنایا یہ اس طرح اور ان میں فطرتی ترتیب کے مطابق بروج اور ان کے کواکب لکھ دئیے۔
پہلا برج حمل ہے اس ک ستارہ مریخ دوسرا ثور اس کا ستارہ زہرہ۔ہم جہاں رہتے ہیں یعنی زمین پر۔ یہ نظام شمسی سے تعلق رکھتی ہے یعنی سورج سے۔ تمام کواکب سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں خود روشن نہیں ہیں۔
شمس و قمر کو ہم نئیرین کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج خود روشن ہے۔چاند خود تو روشن نہیں۔ لیکن سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی ہمیں روشن بہت صاف اور قریب ہی نظر آتا ہے اور بہت تیز روشنی ہماری طرف منعکس کرتا ہے اس لئے اس کو نیئر اصغر کہتے ہیں۔ شمس کو نئیر اکبر کہتے ہیں۔ دونوں کو ملا کر نئیرین کہتے ہیں۔
چھوٹا روشن قمر ۔ بڑا روشن شمس
ہم زمین پر رہتے ہیں اور یہ قمر کے نزدیک ہے اسی وجہ سے زائچے میں بالترتیب پہلے قمر اور اس کا برج سرطان آتا یے پھر پھر شمس اور اس کا برج اسد آتا ہے
اصول یہ ہے کہ مرکز نئیرین ہوئے چونکہ یہ زمین یا ہمارے قریب ہیں۔انہیں مرکز کہہ لیجئے یا نکتہ آغاز سمجھ لیجئے۔
زحل اس لئے نحس اکبر ہے کہ یہ نئیرین کے مقابل ہییعنی شمس و قمر سے اس کا فاصلہ ایک سو اسی درجہ پر ہے جسے نظر مقابلہ کہتے ہیں
مشتری سعد اکبر اس لئے ہے کہ یہ نئیرین سے نظر تثلیث بناتا ہے۔ یعنی اس کے اور نئیرین کے مابین ایک سو بیس درجہ کا فاصلہ ہے۔اسی اصول پر آپ بقیہ کواکب کو بھی نئیرین سے دیکھیں گے تو ان کی قوت سعادت و نحوست کا ادراک ہوگا ۔
جس کا فاصلہ نئیرین سے ساتھ درجہ ہوگا وہ سود اصغر کیونکہ اس کی نئیرین سے تسدیس قایم ہوگی۔
تربیع یعنی نوے درجہ والا نحس اصغر۔
ایک برج تیس درجہ کا ہوتا ہے اس حساب سے ان کے درمیان حساب کر سکتے ہیں کہ ایک کوکب سے دوسرا کوکب کتنے فاصلے پر ہے۔ اور اسی اصول پر احکامات مرتب کئے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں پیشگوئیاں کی جاتی ہیں۔
اسی اصول سے کواکب و بروج کے مابین دوستی دشمنی دیکھی جاتی ہے۔اور اسی اصول پر تعلقات جانچے جاتے ہیں مثلا ازدواجی زائچہ میں لڑکا لڑکی کے مابین یہ دیکھنا کہ ان کی شادی کیسی رہے گی ۔ غرض اس پورے علم نجوم کا سار انظام اسی اصول پر قائم ہے۔جس نے اس اصول کو سمجھ لیا وہ علم نجوم پر آسانی سے عبور حاصل کرسکتا ہے۔
لیکن یہی وہ نکات ہیں جو دور حاضر ہے منجمین نہیں جانتے۔
وہ بس کتب نجوم سے یا سوفٹ وئیرز سے اپکو پیشگوئیاں کرکے دے سکتے ہیں یا زائچے بنا کر اور ان کے احکامات بیان کر سکتے ہیں۔ اور بس ! علم ہئیت و نجوم یعنی فلکیات کی اصل روح کا ان کے باپ کو بھی علم نہیں ہے۔
وہ یہ کہ عطارد اس میں اپکو نئیرین سے ساقط النظر ملے گا۔ اس لئے وہ ممتزج ہے۔یعنی نہ سعد ہے اور نہ نحس ہے
پس آپ دنیا کی کوئی بھی علم نجوم کی کتاب کسی بھی زبان میں لکھی ہوئی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔آپ کو عطار وہاں ممتزج ہی لکھا ہوا ملے گا۔زہرہ سعد اصغر مریخ نحس اصغر
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here