قارئین کرام !آج کا کالم میں ایک قول سے شروع کر رہا ہوں ،”ظلم جب حد سے بڑھے آواز اٹھانا لازم ہے ، جب حاکم ظالم جابر ہو خود کے لئے لڑنا واجب ہے”۔ میرا تین دہائیوں پر مشتمل صحافتی دور اس حقیقت کا شاہد ہے کہ جب جب ظلم کے سائے پھیلے ہیں میرا قلم ان کے خلاف اٹھا ہے ،جبر وستم کا یہ عمل فرد کے خلاف ہو، قوم پر ہو یا ایسے نظام کا سبب ہو جو انسانی اقدارکے بر عکس ہے۔ پاکستانیوں کی بد نصیبی ہے کہ 77 برسوں میں ان کا واسطہ ظلم وستم اور جابر حکمرانوں سے ہی پڑا ہے، بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایسے حکمرانوں کے برعکس عوام و ملک کے ہمدرد قائدین میسر آئے ہوں اور انھیں عوامی نمائندگی و خدمت کا قطعی موقع دیا گیا ہو ۔ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ اور جمہور و جمہوریت کی توہین و بربادی کی حقیقت پاکستانی قوم کے بچے بچے کو ازبر تو ہے ہی ، دنیا بھر میں بھی خصوصاً بھارت کے جمہوری نظام کے مقابل کسی مثبت تاثرکی حامل نہیں ہے۔ ماضی میں ملک اور جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتی رہی اور جس طرح عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جاتی رہی اس کے حوالے سے گریز کرتے ہوئے موجودہ حالات کے بارے میں اظہار خیال یہی ہو سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال ماضی کے تمام جابرانہ ادوار سے بدترین ہی نہیں نہایت ظالمانہ و منتقمانہ حدوں کو پہنچ چکی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ سپورٹ و مقبولیت کے باوجود محض عمران دشمنی کی بناء پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جس طرح آئین، جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی دھجیاں بکھیر جا رہی ہیں اور عوامی مینڈیٹ کی توہین ہو رہی ہے اس کے ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ طاقتوروں کے قیامت خیز اقدامات اور عمران و پی ٹی آئی کیخلاف ہر حربہ و ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کے باوجود 8 ستمبر کو پی ٹی آئی کے جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ عمران کی محبت عوام کے دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ حکومت، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر رکاوٹوں، سختیوں، پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عمران کے شیدائیوں کی شرکت نے ایسا ریکارڈ بنا دیا ہے جس کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ ایک سینئر صحافی کے بقول جلسے میں شرکت کیلئے رکاوٹوں، پابندیوں اور مواصلات کی عدم دستیابی کے باوجود جس طرح عوام نے (جن میں 80 سالہ معذور حتیٰ کہ اسپیشل افراد و خواتین بھی شامل تھے) قافلوں کی صورت میں ہر دُشواری کو شکست دیتے ہوئے حتیٰ کہ نالوں، گھٹنے گھٹنے پانی و کیچڑ سے گزر کر جلسہ گاہ پہنچنے کی سعی کی، اس نے 1947ء کی ہجرت کی یاد دلا دی جب مہاجرین ایسی ہی مشکلات سے گزر کر وطن عزیز پہنچے تھے۔ اس وقت تو ظلم و مشکلات پیدا کرنے والے وہ دشمن تھے جنہیں تخلیق پاکستان قبول نہیں تھی لیکن 8 ستمبر کے جلسے میں ظلم و مشکلات پیدا کرنے والے وہ تھے جو پاکستان کی ریاست، حکومت، انتظامیہ اور جمہوریت کے دعویدار اور ذمہ دار ہیں۔ جلسے کی کامیابی تو ساری دنیا نے دیکھی اور دشمنوں نے بھی تسلیم کیا کہ عمران کے پابند سلاسل ہوتے ہوئے بھی عوام نے کس طرح اپنے محبوب قائد سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا لیکن عمران دشمن قوتوں اور ان کی محتاج نامقبول حکومت کو یہ سب کیسے گوارا ہو سکتا تھا، جلسے سے دو روز قبل اسلام آباد ٹیریٹری میں جلسوں کے انعقاد کیلئے بنائے گئے غیر انسانی و غیر جمہوری قانونی تناظر کی آڑ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی و سینیٹ اور عہدیداروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری کر دیا گیا وہ نہ جمہوری اقدار سے درست ہے اور نہ انسانی اصولوں کے مطابق بنتا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاری اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت کے بغیر آئین کی خلاف ورزی اور جرم ہے لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہوتا ہے اور یہی رویہ اپنایا گیا۔ ہماری اس تحریر کے لکھے جانے تک بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اور شعیب شاہین کو گرفتار کیا جا چکا تھا جبکہ اطلاع یہ ہے کہ شیخ وقاص اکرم، صاحبزادہ حامد رضا اور زین قریشی سمیت پارلیمنٹیرینز کی طویل فہرست کی گرفتاریاں مطلوب تھیں۔ سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلاء تنظیموں کا احتجاج کا اعلان اور عدالتوں سے رابطے کیساتھ پی ٹی آئی کا احتجاج بھی سامنے آیا ۔ نہایت تشویش پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور سے عدم رابطے کی آئی جس کے سبب کے پی ہائوس سے اور خیبر پختونخواہ سے ایسی اطلاعات آرہی تھیں جو کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں نہیں ہو سکتیں اور کشیدگی و مزید حالات کی ابتری پیدا کر سکتی تھیں۔ خیر ہوئی کہ وزیراعلیٰ کے پی 8گھنٹوں کے بعد واپس آگئے، وہ کہاں تھے کس وجہ سے تھے ان پر کیا گزاری ان تفصیلات سے قارئین آگاہ ہوچکے ہیں۔ شکر یہ بھی کہ اراکین اسمبلی بھی راہ ہوگئے ہیں تاہم یہ حقیقت نہیں بولنا چاہیے کہ پارلیمان کی بے توقیری کسی قومی یا دفاعی یادگار یا مقام کی توہین سے کم نہیں ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے ذمہ داران اس فیصلے پر پہنچ چکے ہیں کہ حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے جہاں خون خرابے اور فسادات کے سواء کچھ نہ بچے اور اس کے نتیجے میں ایسی صورتحال سامنے آئے جو تباہی ہی تباہی ہو۔ کیا محض عمران سے بغض و عناد کی وجہ سے مقتدرہ اور اس کے محتاج حکومتی آلہ کار طے کر چکے ہیں کہ ملک کو آمریت و فسطائیت کی بھٹی میں جھونک دیا جائے خواہ اس کے قومی و بین الاقوامی سطح پر کتنے ہی بھیانک نتائج کیوں نہ ہوں۔ عمران کیساتھ بدترین ظلم و استبداد کے بعد اب ملٹری کورٹس کا کھڑاک اور خاکم بدھن اسے راہ سے ہٹانا آسان نہیں اور ملک میں طاقتوروں اور عوام کے درمیان قومی سالمیت و وحدت کے خاتمے کو دعت دے سکتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہننانے کیلئے وہ حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جن کا نتیجہ بقول ایک سینئر صحافی و قانون دان ایمر جنسی یا مارشل لاء پر ہو اور غیر مقبول موجودہ سیاسی حکومت اس کا ملبہ مقتدرہ پر ڈال دے۔ کیا مقتدرہ اتنی ہی معصوم ہے یا معاملہ وہی ہے جو ماضی کے آمروں نے اختیار کیا تھا۔ ساحر لدھیانوی کے بقول !
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو رنگ بدل سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭