فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
4

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! غزوہ خیبر کے موقع پر”اسودری” نام کا ایک شخص تھا۔ یہ ایک حبشی غلام تھا جو یہودیوں کے مویشی چرایا کرتا تھا۔ صحرا سے اس قدر مانوس تھا کہ اپنے وقت کا اکثر حصہ وہیں گزارتا تھا۔ ایک دن شام کو وادی میں پلٹ کر آیا تو دیکھا کہ سارے یہودی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ تلواروں پر پانی چڑھایا جارہا ہے نیزے اور تیروں کی نوکس صیقل کی جارہی ہیں۔ جگہ جگہ سپاہیوں کی قطار کھڑی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے متعجبانہ لہجے میں دریافت کیا۔ یہ کس سے جنگ کی تیاری ہو رہی ہے؟ یہود نے جواب دیا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عرب کے نخلستان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ اپنے ساتھ دیوانوں کی ایک فوج لے کر وہ فلاں مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ اُسی کے ساتھ ہم مقابلے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ امروز فردا میں یعنی آج کل میں اس کی فوجیں ہمارے قلعہ کی فصیل تک پہنچنے والی ہیں۔ یہ جواب سن کر چروا ہے کے لاشعور میں اچانک جسجوئے شوق کا ایک چراغ جل اٹھا اور وہ حقیقت سے قریب ہو کر سوچنے لگا۔ بلاوجہ کوئی دیوانہ نہیں ہوتا وہ بھی دیوانوں کی ایک فوج جو جان دینے کیلئے ساتھ آئی ہے یہ بادہ قریب کی متوالی معلوم نہیں ہوتی۔ یہ کشش صرف جمال حق کی ہے یہ نہ ہو انہوں نے سچائی کا بے نقاب چہرہ دیکھ لیا ہے۔ یہ سوچتے سوچتے دفعتاً اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ یقیناً وہ ایک سچا پیغمبر ہے۔ یہ کہتے ہوئے اٹھاائو بکریوں کو ساتھ لیتے ہوئے بے خودی کے عالم میں ایک طرف چل پڑا۔ بالآخر وہ سراغ لگاتے لگاتے مدنی سرکارۖ کے لشکر میں پہنچ گیا۔ حضورۖ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس نے پہلا سوال یہ کیا: ”آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟حضور علیہ السلام نے اس کے دل کشور کا دروازہ کھولتے ہوئے جواب دیا: اس بات کی کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نبیوں اور رسولوں کا ایک طویل سلسلہ دنیا میں قائم فرمایا جس کی آخری کڑی میں ہوں۔ اس نے پھر دریافت کیا اگر میں خدائے ذوالجلال پر ایمان لائوں اور آپ کی نبوت کا اقرار کر لوں تو اس کا صلہ کیا ملے گا’؟ فرمایا: عالم آخرت کی دائمی آسائش پھر اس نے جذبہ شوق میں بے قابو ہو کر تیسرا سوال کیا:یارسول اللہ! میں حبشی نژاد ہوں، یعنی حبشی پیدائشی ہوں۔ میرے جسم کا رنگ سیاہ ہے۔ میرا چہرہ نہایت بدشکل ہے۔ میں ایک صحر نورو چرواہا ہوں۔ میرے بدن سے پسینے کی بدبو نکلتی ہے۔ اگر میں بھی آپ کی دیوانوں کی فوج میں شامل ہو کر راہ خدا میں قتل کردیا جائوں تو کیا مجھے بھی جنت میں داخلے کی اجازت مل سکے گی؟ ارشاد فرمایا: ضرورت ملے گی یہ سنتے ہی وہ بے خود ہوگیا اور اسی عالم میں کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوا۔ اس کے بعد حضورۖ سے اس نے بکریوں کی بابت دریافت کیا۔ ارشاد فرمایا: دوسرے کی چیز ہمارے لئے حلال نہیں ہے۔ انہیں قلعہ کی طرف لے جا کر اور کنکر مار کر ہنکا دو۔ یہ سب اپنے اپنے مالک کے پاس چلی جائیں گی چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن ولولہ شہادت کے ہیجان سے اسے ایک لمحہ قرار نہیںتھا۔ فوراً الٹے پائوں واپس لوٹ آیا اور مجاہدین اسلام کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ وقاعات کے راوی بیان کرتے ہیں کہ دوسرے دن جب میدان جنگ میں سپاہیوں کی قطار کھڑی ہوئی تو جذبہ عشوق کا اضطراب اس کے سیاہ چہرے سے شبنم کے سفید قطروں کی طرح ٹپک رہا تھا۔ طبل جنگ بجتے ہی اس کے ضبط وشکیب کا بند ٹوٹ گیا اور وہ ایک بے تاب دیوانے کی طرح دشمنوں کی یلغار میں کود پڑا۔
اس کے سیاہ ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلوار کا منظر ایسا دلکشا معلوم ہوتا تھا جیسے کالی گھٹائوں میں بجلی تڑپ رہی ہو کہتے ہیں کہ نہایت بے جگری کے ساتھ اس نے دشمن کا مقابلہ کیا۔ زخموں سے سارا جسم لہولہان ہوگیا تھا۔ لیکن شوق شہادت کے نشے میں وہ دشمن کی طرف بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ چاروں طرف سے اس پر تلواریں ٹوٹ پڑیں۔ اب وہ نیم جان ہو کر زمین پر تڑپ رہا تھا اور گھائل جسم میں اس کی روح مچل رہی تھی کہ اب جنت کا فاصلہ بہت قریب رہ گیا تھا۔ بڑائی ختم ہونے کے بعد جب اس کی نعش حضورۖ کے سامنے لائی گئی تو اس کے فیروز بخت انجام پر سرکار علیہ السلام کی پلکیں بھیگ گئیں: فرمایا: اسے جنت کی نہر حیات میں غوط دیا گیا اب اس کے چہرے کی چاندنی سے فردوس کے بام دور جگمگا اٹھے ہیں۔ اس کے پسینے کی خوشبو میں حوران بہشتی اپنے آنچل بسا رہی ہیں۔ جنت کی دو حسین حوریں اسے اپنے جھرمٹ میں لئے ہوئے باغ خلا کی سیر کرا رہی ہیں۔ سچ کہا ہے عارفان طریقت نے کہ عشق واخلاص کی ایک جنون انگیز ادا ہزار برس کی بے دیا عبادتوں اور حسنات کے بے شمار ذخیروں پر بھاری ہے۔ یہی وہ سکہ رائج الوقت ہے جس میں آج تک کہیں بھی کھوٹ نہیں نکلا اور کسی عالم میں بھی اس کے نرخ کی سطح نیچے نہیں اتری۔ جذب عشق کی ایک ہی جست نے عالم اسفل کے خاک زادوں کو بام عرش تک پہنچا دیا۔اور محبت ہی کا گزار تھا جس نے قیصر وکسریٰ کے ایوانوں پر اپنی شوکتوں کے پرچم اڑوائے اور روئے زمین کی بڑی سے بڑی عظمتوں کو اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالا۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here