جنگ کا نیا محاذ!!!

0
37

جنگ کا نیا محاذ!!!

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میںاسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ سامنے آیا تو اس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان نئی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے ، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دنیا میںامن ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، ایک کے بعد ایک ملک باہمی تضادات پر جنگی محاذ کا آغاز کر رہے ہیں،پاکستان کے لیے بھارت کی نسبت افغانستان کا جنگی محاذ خاصہ مشکل ہوگا، جیسا کہ کابل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود کی ہلاکت کے حوالے سے غیر مصدقہ اطلاعات گردش کررہی ہیں، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو ایک ایسی پالیسی مرتب کرنا ہوگی جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے، داخلی سلامتی کو مستحکم کرے اور افغانستان کے ساتھ کسی بڑے تنازعے کو روکے۔افغانستان میں2021 میں افغان طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری دیکھی جا رہی ہے اور ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان اور سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کی گئی ہیں۔پاکستان کو یہ گلہ رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور یہ سرحد پار پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔پاکستان کے سکیورٹی حکام ملک میں ہونے والے بیشتر حملوں کا ذمہ دار تحریکِ طالبان پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے افغان طالبان سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم افغان طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور افغانستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے،پاکستان کے دفتر خارجہ نے گذشتہ برس دسمبر میں پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن کی تصدیق کی تھی۔اس سے قبل اپریل 2022 میں بھی افغان طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ کنڑ اور خوست میں پاکستان اِیئر فورس کی کارروائی میں 20 بچے مارے گئے تھے تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔اس الزام کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغانستان کی طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔خوست میں مقامی ذرائع نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ 16 اپریل سنہ 2022 کی صبح سپیرا ضلع کے چار دیہات میں ہونے والے حملوں میں متعدد خاندانوں کے کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تاہم ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ بعد ازاں یونیسیف نے ان حملوں میں 20 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ شب ہونے والے حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کی ہلاکت کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں ان کی قیادت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی ملک کے اندر کارروائیوں کی تعداد بڑھی ہے اور یہ شدت پسند تنظیم بظاہر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے بڑا اور مشکل چیلینج بن گئی ہے۔نور ولی محسود کو فروری 2018 میں خالد سجنا کی ہلاکت کے بعد حلقہ محسود کے شدت پسندوں کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ مفتی نور ولی سابق امیر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی رہے ہیں اور ماضی میں تحریک کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ہیں پھر اسی سال (جون سنہ 2018 میں) مفتی نور ولی محسود کو امریکی ڈرون حملے میں اس وقت ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔نور ولی محسود جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں پیدا ہوئے اور وہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔یہ بھی المیہ ہے کہ پاکستان جن افغان دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویدار ہیاس کی اکثریت خود پاکستان کی پیدا کر دہ ہے جوکہ پاکستان کیمختلف شہروںمیںرہائش پذیر رہی ہے ، اب دیکھنا ہے کہ پاکستان اس پراکسی وار میں کس طرح کامیابی حاصل کرتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here