وعدے اور حقیقت!!!

0
55
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان کا سیاسی نظام گزشتہ سات دہائیوں سے ایک ایسے سفر پر گامزن ہے جس میں تبدیلی کے وعدے تو بہت کیے گئے، مگر حقیقی اصلاحات کا سفر اب بھی ادھورا ہے۔ ہر انتخابی مہم کے دوران عوام کو نئے خواب دکھائے جاتے ہیں، مگر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے بعد وہ خواب ہمیشہ مصلحتوں اور مفادات کی گرد میں گم ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں سیاست ایک پیشہ سے زیادہ ایک کھیل بن چکی ہے، جہاں اصولوں کی جگہ موقع پرستی اور عوامی خدمت کی جگہ ذاتی مفاد نے لے لی ہے۔ ہر دورِ حکومت میں یہی نعرہ بلند ہوتا ہے کہ ملک بدل دیں گے، مگر ہر حکومت کے اختتام پر عوام یہی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ شخصیات کے گرد گھومتا ہے، نظریات کے گرد نہیں۔ جماعتوں میں جمہوریت کم اور قیادت کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی وابستگی اکثر نظریاتی بنیادوں کے بجائے ذاتی مفادات پر استوار ہوتی ہے۔ اقتدار کے بدلتے ہی وفاداریاں بھی بدل جاتی ہیں، اور جس پارٹی کو کل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اگلے ہی دن اس کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا جاتا ہے۔پاکستانی عوام ہر الیکشن میں امید باندھتی ہے کہ شاید اس بار حالات مختلف ہوں گے۔ مگر سیاسی وعدے اکثر انتخابی نعروں سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے ہمیشہ اگلے بجٹ کے وعدوں میں ٹال دیے جاتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے کردار میں بھی ایک عجیب دوغلا پن دکھائی دیتا ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے ہر جماعت ریاستی پالیسیوں کو درست قرار دیتی ہے، لیکن جیسے ہی حکومت ہاتھ سے نکلتی ہے، وہی پالیسیاں ملک دشمن قرار دے دی جاتی ہیں۔ یہی تسلسل جمہوری اداروں کو کمزور اور عوام کے اعتماد کو متزلزل کرتا ہے۔پاکستان کی جمہوریت میں عوام کا کردار بدقسمتی سے صرف ووٹ ڈالنے تک محدود ہو گیا ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد وہی عوام پانچ سال تک وعدوں کی تعبیر کے انتظار میں رہتی ہے۔ نہ پارلیمنٹ میں ان کی آواز سنی جاتی ہے، نہ گلی محلوں میں ان کے مسائل۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت صرف سیاست دانوں کے لیے طاقت کا ذریعہ ہے، عوام کے لیے نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی سیاست کو شخصیات کے سحر سے نکال کر اداروں کی مضبوطی کی سمت لے جایا جائے۔ جمہوریت محض ووٹ دینے کا نام نہیں، بلکہ جواب دہی، شفافیت اور خدمت کا نظام ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری اقدار کو فروغ نہیں دیں گی، اور جب تک عوام وعدوں کے بجائے کارکردگی کو معیار نہیں بنائیں گے، تب تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمند تعبیر نہیں ہو سکتا۔پاکستان کو اس وقت ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جو عوامی فلاح پر مبنی ہو، جہاں اقتدار ایک خدمت ہو، اور سیاست دانوں کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے ہو۔ بصورت دیگر، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی، چہرے بدلیں گے، مگر حالات جوں کے توں رہیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here