جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی!!!

0
22

پاکستان کے ایک ابتدائی سکول میں انگریزی زبان پڑھتے ہوئے سب سے پہلا محاورہ جو یاد کرنے کا موقع ملا تھا وہ تھا۔ Friend in Need is Friend Indeed۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب امریکہ کے انگریزی معاشرے میں رہنے کا موقع ملا تو یہاں کی دوستی کے معیار ہمارے لئے سمجھنا خاصا مشکل ہو گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ ہم نہ صرف روایتی دوستیوں والے ملک پاکستان سے یہاں آئے تھے بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ سے طویل تعلق رکھنے کی وجہ سے اخوت کے ایک ایسے جذبہ سے سرشار تھے جس کو سمجھنا امریکی کیا بہت سارے پاکستانیوں کے بس کی بات بھی نہیں پھر جمعیت کے اندر بھی طالبِ علمی کے آخری پانچ سال لاہور میں رہنے کی وجہ سے باہمی تعلقات باقی جغرافیائی علاقوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتے تھے۔مثلا مجھے ایک ڈیڑھ سال کراچی میں رہنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ وہاں جمعیت کے کارکنان، بڑے شہر میں رہنے کی مجبوریوں کی وجہ سے یاری دوستی کا وہ معیار برقرار نہیں رکھ پاتے تھے جو پاکستان کے باقی علاقوں میں نظر آتا تھا۔ خیر، جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی اسی طرح ہمارے لئے بھی امریکہ میں رہنے کیلئے یاری دوستی کا ایسا حلقہ بنانا ضروری تھا کہ جس میں بیٹھ کر ہم خرم مراد کی کتاب کارکنان کے باہمی تعلقات پھر سے پڑھ سکیں۔ ارادہ پختہ ہو تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر گنگناتے گنگناتے، آخرِ کار ہم نے اپنا مثالی حلقہ یاراں بنا ہی لیا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
امریکی سسٹم میں تو کیفے ٹیریا یا کسی ریسٹورانٹ میں جب چند دوست مل کر چائے بھی پیتے تھے تو ہر کوئی اپنی چونی خود ہی دیتا تھا۔ ہمارا دسترخوان تو اللہ کے فضل سے اتنا وسیع ہوتا تھا کہ میزبان کے علاوہ کوئی ایک پائی بھی ادا نہیں کرسکتا تھا۔ یہ علیحدہ بات تھی کہ میزبان بدلتے رہتے تھے لیکن کھانے پینے کے بل کو تقسیم کرکے ادا کرنا، ممکن نہیں ہوتا تھا۔اس ساری تمہید کے بعد آج میں خصوصی ذکر اپنے ان سارے دوستوں میں سے صرف دو کا کرنا چاہتا ہوں تاکہ انگریزی محاورے Friend in Need is Friend indeed کی کچھ ترجمانی ہو سکے۔ زندگی کے عام معمولات میں تو ہم سارے ساتھی تھوڑی بہت لین دین ایک دوسرے کے ساتھ کرتے رہتے تھے لیکن نو دس سال پہلے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر تیمور الحسن کو کینسر کے موذی مرض نے گھیر لیا۔ ویسے بھی تیمور مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھا لیکن اباجان کے انتقال کے بعد تو بڑے بھائی کی حیثیت سے اس کے علاج کی ساری ذمہ داری میری ہی بنتی تھی۔ ہنگامی حالت میں اپنی ساری جمع پونجی کے ساتھ ساتھ کچھ دوستوں سے بھی خطیر رقوم قرضِ حسنہ کے طور پر لینا پڑی۔ دو سرجریوں کے بعد تیمور کو تو ہمیں سپردِ خدا کرنا پڑا لیکن دو ساتھیوں کا قرضہ میرے ذمہ رہ گیا۔
اس سال حج کرنے کا پروگرام بنا اور میں نے اپنے حسابات دیکھے تو اندازہ ہوا کہ میرے ان دونوں دوستوں نے اپنی دوستیوں کی پاسداری کچھ اس طرح سے کی ہے کہ اس سارے عرصے میں انہوں نے کبھی ان بڑی رقموں کا کبھی ذکر ہی نہیں کیا جو میں نے تیمور کے علاج کے دوران ان سے قرض لی تھیں۔ کئی سال بیت گئے۔ اس دوران ضرور ان کو اپنی رقم کی ضرورت بھی پڑی ہوگی مگر ان دونوں نے اشارتا بھی مجھے یہ کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ میں نے ان کا یہ قرض واپس کرنا ہے۔ اب سفرِ حج درپیش ہے اور میں چاہ رہا تھا کہ اپنے حسابات کے مطابق سارے قرضے ادا کردوں تاکہ اللہ تعالی کے ہاں ہمارا حج قبول ٹھہرے۔ دونوں حضرات سے رابطہ قائم کرکے رقوم واپس کرنا چاہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد ایک ساتھی تو رقم واپس لینے پرآمادہ ہو گئے لیکن دوسرے دوست ابھی تک بضد ہیں کہ تیمور تو میرا بھی بھائی تھا۔ میں یہ رقم واپس نہیں لے سکتا۔
اللہ تعالی کا بیحد شکر ہے کہ اس نے ایسے دوست عطا فرمائے جو ضرورت کے وقت کام بھی آئے اور ہماری عزتِ نفس کا خیال بھی رکھا۔ ای جی جوش صاحب کی شاعری سے استفادہ کرتے ہوئے یہ چند اشعار ہمارے احساسات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن
جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن
میں اس بات کا ہمیشہ سے قائل رہا ہوں کہ زیادہ اچھے دوست صرف طالب علمی کے زمانے میں ہی بنتے ہیں۔ اس کے بعد تو مفادات کے بنیاد پر لین دین ہی ہوتا رہتا ہے۔ میرے یہ دوست بھی طالبِ علمی کے دور کے ہی ہیں اور اب عمر کے اس آخری حصے میں بھی خوب ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ لوگ بڑے بدنصیب ہوتے ہیں جو کسی کو دوست نہیں کہہ سکتے۔ اپنا رازداں نہیں بنا سکتے۔ کوئی مشورہ نہیں کرسکتے۔ دکھ سکھ شیئر نہیں کر سکتے۔ میری حالت تو ہمیشہ یہ رہی ہے کہ گھر والوں کو ہمیشہ شکایت ہی رہی کہ آپ کے دوستوں سے ہی ہمیں آپکی باتوں کو پتہ چلتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوست تکلیف پہنچانے کے بعد بھی دوست ہی رہتا ہے۔ دوستی کا یہ جذبہ ہی ایسا ہے۔ انور شعور صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔
دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعور
دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ
بہرحال اپنے ان سارے دوستوں کیلئے دعاں اور نیک تمناں کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں، جنہوں نے ہمیں غالب کی اس قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here