2024 کا سفرنام وطن!!!

0
30
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

قارئین !میں اپنے مرحوم والد علامہ ملک عطا اللہ سندرالوی کی تینتیسویں اور چھوٹے بھائی علامہ ملک الفت حسین سندرالوی کی پہلی برسی میں شرکت کیلئے پاکستان گیا ہوا تھا۔ اس بار نیویارک سے سندرال سات دن میں پہنچا ۔ اس لیے کہ دوبئی پہنچتے ہی طوفان باد و باراں کا سامنا کرنا پڑا اور جہاز پانچ دن کی تاخیر سے چلا اور ایک دن کراچی میں گزرا ۔ خدا خدا کرکے برسی کی قرآن خوانی ، مجلس امام حسین علیہ السلام سے بارہ گھنٹے پہلے اپنے آبائی گائوں سندرال پہنچ گیا۔ میری روٹین ہے کہ میں دوبجے اُٹھ جاتا ہوں۔ جب گائوں میں ہوتا ہوں تو ہر نماز جماعت سے پڑھتا یا پڑھاتا ہوں۔ سات دن گائوں میں گزارے ۔ ہمارے گائوں میں تین شیعہ مساجد ہیں۔ ایک تو جامعہ مسجد حسینیہ ہے جہاں ہمارے بھتیجے شاگرد مولانامحمد ثقلین قدوسی سلمہ امام جمعہ و جماعت ہیں،انکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ نماز میں پڑھائوں ۔ کبھی کبھار میں پڑھا دیتا ہوں، جمعہ بھی کچھ مرتبہ پڑھا چکا ہوں ۔ اس مسجد میں حاضری زیادہ ہوتی ہے۔یہ مسجد میرے نانہال و سسرال کی زمین میں بنائی گئی ہے ۔ ایئر کنڈیشنڈ مسجد ہے۔ پانچوں نمازیں جماعت سے ہوتی ہیں۔ دوسری مسجد! علی مسجد ہے جو ہمارے کزن کی دی گئی جگہ پر بنائی گئے ہے ۔ وہاں پر بھی ہمارے رشتہ کے بھتیجے مولاناملک فخر حیات امام جماعت ہیں ۔ وہاں بھی حاضری ہوتی ہے، تیسری مسجد کی دیوار ہمارے گھر سے ملی ہے ، یہ ہمارے رشتے کے چچا اور رشتے کی خالہ کی دی ہوئی زمین پر میرے چھوٹے بھائی علامہ ملک الفت حسین سندرالوی نے اپنی آخری زندگی میں بنوائی تھی ۔ جب وہ مسجد بنوارہے تھے تو بقول مرحوم کے نیوجرسی اور ورجینیا سے تین بدمعاش انہیں روزانہ گالیاں بکتے تھے ۔ مسجد بن گئی ۔ جماعت قائم ہے اور گالیوں والے اپنے تین اور اصحاب ثلثہ کے ساتھ آج بھی سادات و علما و مومنین کو گالیاں بکے جارہے ہیں ۔ اللہ ان چھ کے چھ کو نیک ہدایت کرے جو امریکہ کا بدترین گالی گروپ گینگ بن کے اُبھرا ہے یہاں ہمارے رشتے کے چچا مولانا ملک محمد حیات پیش نماز ہیں۔ وہاں بھی حاضری ہوتی ہے ۔ ہر نماز میں مسجد میں ادا کرتا ہوں۔ فجر کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔ جوانوں کی دلچسبی بھی قابل رشک ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں کہ میں مسجد جاں اور مجھے نماز پڑھانے یا درس دینے کا نہ کہا گیا ہو۔ جس مسجد میں درس کا اعلان ہوتا ہے وہ بھر جاتی ہے۔ اور ہر صبح کو میں درس دیتا ہوں۔ برسی کی قرآن خوانی ہوئی میں نے فاتحہ اور ختم پڑھایا۔ مجلس دن بھر جاری رہے ۔ سو سے زیادہ علما و ذاکرین خطاب کو پہنچے۔ چالیس نے خطاب کیا۔ سینکڑوں سادات و مومنین و مومنات پہنچے۔ دن بھر نیاز امام حسین علیہ السلام سرو ہوتی رہی ۔ سیاست دان، سماجی راہنما، صحافی برادری کی بھرپور حاضری تھی، کراچی سے اسلام آباد تک مجمع پہہچا۔ میرے رشتہ داروں نیاز کا بہترین اہتمام کیا تھا۔ ہمارے خاندانی نوکر وردیاں پہنے نیاز امام زحسین ع سرو کرتے رہے۔ شیعہ اور سنی شریک ہوئے۔ سندرا ل کے گلی کوچے پھر گئے تھے۔ جاری ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here